شمالی وزیرستان میں دو دن پہلے جو ہوا، اس میں طاقت کا استعمال بلا شبہ ایک بڑا جواز رکھتا ہے، حملہ فوج کی ایک چوکی پر نہیں پاکستان اور ریاستی اداروں پر کیا گیا، بویہ کے علاقے میں خار کمر پوسٹ پر مقامی لوگ اپنے مطالبات کیلئے پچھلے تین دنوں سے مظاہرہ کر رہے تھے،بقول آئی ایس پی آر جب اس احتجاج کا نتیجہ نکلنے لگا ان لوگوں کے مطالبات پورے کرنے کی حامی بھر لی گئی تو اچانک پشتون تحفظ موومنٹ کے دو لیڈر اپنے ساتھیوں کا ایک بڑا جتھہ لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں اور چیک پوسٹ پر سیدھی فائرنگ شروع کر دی جاتی ہے، جوابی کارروائی میں تین باغی مارے جانے کی اطلاع تھی جس میں اب مزید پانچ لاشوں کا ضافہ ہو چکا ہے ۔ ، یہ لاشیں اگلے روز چوکی سے کچھ دور موجود تھیں، غالب امکان یہی ہے کہ یہ پانچوں چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں زخمی ہو کر وہاں سے بھاگے ہونگے اور کچھ دور تک آگے جا کر ہمت ہار گئے ہوں گے، سکیورٹی چیک پوسٹ پر یہ حملہ محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں ہوا، علی وزیر کو تو جوابی کارروائی کے دوران اپنے آٹھ ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا لیکن محسن داوڑ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، اطلاعات ہیں کہ وہ افغانستان پہنچ چکا ہے اور اپنے ،، دوستوں،، کی حفاظت میں ہے، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ بہت سارے معاملات کا عکاس ہے، ایک چوکی پر حملہ پسپا کر دینے کا مطلب یہ نہیں کہ حالات قابو میں آ گئے ہیں، یہ کرائے کے نام نہاد باغی ہیں، محمود اچکزئی جیسے منجھے ہوئے سیاستدان جو کبھی ہمارے لئے بہت محترم ہوا کرتے تھے اب بہت ساری باتوں میں کرائے کے باغیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ان لوگوں کے لئے اب پاکستان نہیں افغانستان زیادہ اہم ہو چکا ہے، سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ہونے والا حالیہ واقعہ گلہ لئی اسماعیل کے خلاف ایکشن کا ری ایکشن ہو سکتا ہے ، لیکن ان تمام واقعات اور اقدامات کے باوجود ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں ہرگز ہرگز نہیں ہے، معلاملات سدھارنے ہیں تو پالیسیاں بدلنا پڑیں گی، جو جو کچھ بھی اب تک عام آدمی کو نہیں بتایا گیا اس سب سے پردہ اٹھانا پڑے گا، پچھلی چار دہائیوں میں علیحدگی پسند عناصر جہاں تک پہنچ چکے ہیں اسے اوپن کرنا پڑے گا، کیونکہ حالات کو سدھارنے کیلئے پورے پاکستان کے عوام کی مدد بھی درکار ہے اور عوام ہی ان لوگوں کے سامنے صحیح صرتحال پیش کر سکتے ہیں جنہیں آج تک پاکستان کے خلاف بہکایا جاتا رہا، پاکستان کے میڈیا کو وزیرستان کے عوام کے ایشوز سامنے لانے کی اجازت ہونی چاہئیے، ٹی وی چینلز پر پشتون تحفظ موومنٹ کے نمائندوں کو ان کے ایشوز پر مساوی طور پر بلوایا جانا چاہئیے، اس موومنٹ سے جڑے ہوئے لوگوں کو یہ احساس دلایا جانا بہت ضروری ہے کہ وہ بھی دیگر پاکستانی شہریوں کی طرح برابر کے شہری ہیں، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیرستان جسے پہلے علاقہ غیر کہا جاتا تھا، ہماری طرف سے سوتیلا پن کا شکار رہا، موجودہ حکومت نے پہلی بار وہاں ترقی و تعمیر پر توجہ دی ہے، ہمیشہ سے قبائلی سرداروں کے مرہون منت رہنے والے وہاں کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں کبھی سوچا تک نہ گیا، ہمیں یہی کہا جاتا رہا کہ وہاں کے اپنے قاعدے قانون ہیں، اپنے رسم و رواج ہیں اور وہ لوگ وفاق کی مداخلت پسند نہیں کرتے ، پچھلی ہر حکومت نے ان علاقوں کو خاکی وردی کی دہلیز کے نیچے رکھا،
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بد قسمتی سے ان علاقوں کو القاعدہ اور داعش کی ،، سپرداری،، میں دیدیا گیا، ان دونوں دہشت گرد تنظیموں نے مقامی آبادیوں کو اپنی غلامی میں لے لیا، ماؤں کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لینے لگی۔ کہنے کو تو ہم بلا تحقیق کہہ دیتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی ابتدا سن دوہزار چودہ میں محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے ہوئی جو کہ ایک غلط تھیوری ہے، ہم ایسے ہی آسانی سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا، یہ بھی غلط ہے، یہ ضرور درست ہے کہ جنوری دو ہزار اٹھارہ میں ڈیرہ غازی خان سے پشاور تک جو احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی اس میں ایک اندازے کے مطابق ساٹھ ہزار کے قریب لوگ شریک تھے اور یہ اس موومنٹ کا سب سے بڑا عوامی شو تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تنظیم کی بنیاد مئی دوہزار چودہ سے بھی بہت پہلے رکھی گئی تھی، تاہم مختلف ادوار میں اس کے نام ضرور بدلتے رہے، منظور پشین نے ایک انٹر ویو میں بتایا تھا کہ یہ موومنٹ اگرچہ سن دوہزار تین میں شروع ہوئی لیکن اس سے پہلے بھی اس کی بنیادیں رکھی جا چکی تھیں۔ ہم پھر عرض کریں گے کہ چار دن پہلے شمالی وزیرستان میں جو افسوسناک واقعہ رونما ہوا اسے ساری بنیادی صورتحال سے نہ جوڑا جائے، اس تنظیم کے سرخیل بنے ہوئے چار چھ لوگوں سے ادارے جیسے مرضی نمٹیں لیکن اس تنظیم سے جڑے ہوئے عام لوگوں سے احترام والا سلوک ہونا چاہئیے، خود پاک فوج کے ترجمان یہ بتا چکے ہیں کہ سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے سے پہلے وہاں موجود احتجاج کرنے والے افراد کے مطالبے مان لئے گئے تھے، اگر ایسا ہی ہے تو اور کیا چاہئیے؟ یہی تو مسئلہ کا حل تھا جسے نکال لیا گیا، وزیرستان کے لوگ لا پتہ افراد کی رہائی اور ان کے خلاف درج مقدمات کی سماعت عدالتوں میں چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں،، فرنٹیئر جرم،، کے نام سے قوانین کا خاتمہ کیا جائے، انہیں آتے جاتے بار بار کی تلاشیوں پر بھی اعتراض ہے، ایک مطالبہ ان کا یہ ہے کہ وفاق کی انتظامیہ قبائلی علاقوں میں زمین کی مسماریاں نہ کرے،،،،، یہ مطالباتی ایجنڈہ کوئی ایسا ایجنڈہ نہیں ہے کہ جسے یکسر مسترد کرکے اپنے لوگوں کو دشمن کا کھلونا بننے پر مجبور کیا جائے اب اسی موضوع پر کچھ باتیں، اپوزیشن جماعتوں کی، شمالی وزیرستان میں سکیورٹی چیک پوسٹ کا وجود ایک الگ بحث ہے اور اس چیک پوسٹ پر مسلح حملہ ایک دوسرا موضوع ، اپوزیشن کو کبھی بھی کسی بھی عمل پر فوری رد عمل سے ہمیشہ گریز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ ایک قومی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا ابتدائی رد عمل جذباتی ردعمل تھا، ایسا لگا کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ جن لوگوں نے چیک پوسٹ پر فائرنگ کی ان کا ہاتھ نہیں روکا جانا چاہئیے تھا، یعنی کہ جوابی فائرنگ کیوں کی گئی؟ بلاول بھٹو زرداری کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے دوسرا بیان حملے کی مذمت میں دیا اور امن و امان کی بحالی میں فوج کے کردار کو سراہا بھی، لیکن ن لیگ کے لیڈر بشمول شہباز شریف حقیقت کو بھانپنے میں ناکام رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے اہم ترین ساتھی خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں جو خطاب فرمایا وہ حکومت اور حکومتی ادارے کے خلاف یکطرفہ چارج شیٹ تھی، انہوں نے فرمایا کہ شمالی وزیرستان میں جو واقعہ رونما ہوا ہے اس پر عمران خان کو اسمبلی میں آ کر اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا، خواجہ آصف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس واقعہ میں قومی اسمبلی کے ایک رکن علی وزیر کو گرفتار کیا گیا ہے اور ایک رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو فرار ہونا پڑا ہے، شہباز شریف کے جانشیں نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنانے اور اس کمیٹی میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا، خواجہ آصف صاحب کے مطالبات کوئی اتنے ناجائز بھی نہیں کہ ان پر کان نہ دھرا جائے، وزیر اعظم کو لازمی طور پر قومی اسمبلی میں خطاب کرنا چاہئیے، کیونکہ معاملہ قومی سلامتی کے اہم ترین ادارے کی ریپوٹیشن کا ہے، اس ادارے کی ساکھ کا جس نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ