ساہیوال کے ہسپتال میںبچوں کی ہلاکت اور وزیر صحت کے طرز عمل نے پھر کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت غریب شہریوں کی صحت کے حوالے سے کوئی اچھی پالیسی لارہی ہے؟ پاکستان میں واحد طبقہ غریب ہے جو بیچارہ علاج کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر تو موجود ہیں مگر ادویات نہیں اور اس کے باوجود فیس نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ہسپتال کے آوٹ ڈور میں ایک ڈاکٹر کے پاس 6گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران سینکڑوں مریض دوائی لینے کے لیے لائن میں گھنٹوں انتظار کرتے ہیں جہاں اُنہیں گریڈفور کا چپڑاسی کئی باتیں سنانے اور گھنٹوں انتظار کے بعدڈاکٹر کے پاس چیک اپ کےلیے بھیجتا ہے اور ڈاکٹرادویات لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ سرکاری ادویات ختم ہو گئی ہیں اور دوبارہ آئی ہی نہیں ہیں
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو کہ صرف چار سو روپے مزدوری کماتاہے بیچارہ اُسی میں گھر کی لازمی ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور خدانخواستہ وہ بیمار ہوجاتا ہے تو اس عالم میں ڈاکٹر کی لکھی ہوئی ادویات کہاں سے لے؟ کیا وہ بھیک مانگے یا سِسک سِسک کے مر جائے؟
حکمرانوں کا تو یہ حال ہے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا بھی نہ تھے
ایسے لوگوں کے لیے پالیسی لانا تو شائد دور کی بات ہے غریب کے لیے سوچنا بھی شائد حکومتی ارکان اپنی توہین سمجھتے ہوں گے۔۔ ایسے حالات میں غریب شہری حکام بالا کو درخواست مالی امداد برائے علاج معالجہ جمع کروادیتا ہے تو سالہا سال دفتری تقاضوں کو پورا کرنے میں لگا دیےجاتے ہیں اس انتظار میں یا تو کسی مُہلک بیماری کا شکار ہو جاتا ہے یا جہان فانی سے رُخصت ہو جاتاہے۔ ہر سال اربوں روپے محکمہ صحت کو غریبوں کی ادویات کے لیے دیئے جاتے ہیں مگر دو ماہ سرکاری ہسپتال میں ادویات دستیاب ہوتی ہیں دوماہ بعد ختم ہو جاتی ہیں کیا اربوں روپے میں صرف دوماہ کی ادویات ملتی ہیں یا وہ ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور مراعات کے لئیے مختص کر دئیے جاتے ہیں؟ دوسرے ممالک میں تو عوام کوخاطر خواہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں مگر افسوس پاکستان میں تو بنیادی طبی سہولیات بھی نہیں دی جاتیں حکومتی ارکان آئے دن میڈیا پر آکر چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے غریبوں کے لیے فلاں سبسڈی دیدی اور فلاں فلاحی کام بھی اس حکومت نے کردیا مگر افسوس کیا دھرا کچھ بھی نہیں جاتا ۔ ہاں صرف اور صرف ایک کام اعلٰی حُکام کرتے ہیں وہ صرف نوٹس لینا ہے اس کے بعد کیا ہوتا ہے اللہ ہی جانے۔
جب کوئی مریض ہسپتال میں سسک کر مر جاتا ہے یا ہسپتال کے گراونڈ میں گائنی وارڈمیں داخلے کے لیے رورو کر کوئی عورت بچہ پیدا کرتی ہے تب حُکام بالا نوٹس ضرور لیتے ہیں مگر اس کے بعد نہ توکسی آفیسر کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی ہے اور نہ ہی انکوائری ہاں البتہ متعلقہ سیاسی ارکان اپنی سیاست چمکانےکےلئیے میڈیا کو ساتھ لے کر اُس کا مذاق اُڑانے ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ کیا یہ سب کافی ہوتا ہے غریب عوام کے لئیے؟ دکھاوے کے لئیے تو غریبوں کےلیے پالیسی ہوتی ہے مگر جب سے یہ تبدیلی سرکار آئی ہےاب تک سرکاری ہسپتالوں میں ادویات فراہم کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچُکی ہے اور غُربت مکاؤ کی بجائے غریب مُکاؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے مخصوص کوٹہ پر منتخب ہونے والی وزیر صحت نے کملپینٹ سیل تو بنا دیا مگر کیا اب تک کی گئی شکایات میں سے کسی ایک شکایت پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا افسوس کہ اس ملک میں ایم پی ایز کی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے کے لئیے تو بجٹ موجود ہے مگر غریب عوام کی صحت کے لئے کوئی بجٹ موجود نہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ سابقہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہسپتالوں کے دورے کئیے تو محسوس ہوا تھا کہ شاید محکمہ صحت میں کو مثبت تبدیلی سامنے آئے گی مگر وہی روایتی عمل ثابت ہوئے کہ نوٹس تو لیا گیا مگر پالیسی کو سامنے نہ آسکی۔
فیس بک کمینٹ