وہ مالاکنڈ سے آئی تھی۔ کالج میں فزکس پڑھاتی اور پشتو میں شاعری کرتی ہے۔ متن یہ تھا کہ جو کچھ ظلم تم عورتوں پر کرتے ہو، اُن سب پر لعنت۔ وہ جس اعتماد کے ساتھ برقعہ اوڑھے ہوئے، بول رہی تھی۔ موجود سب سامعین، اُس کی شاعری کے ہر بند کے بعد تالیاں بجاتے تھے۔
یہ کہاں ہو رہا تھا۔ لوک ورثہ کے ہال میں، مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کیلئے سندھی این جی او نے پاکستان کی ہر علاقائی (قومی) زبان کے شاعروں اور ادیبوں کو اکٹھا کیا تھا۔ یہ وہ دن ہے کہ جس کو یونیسکو نے پاکستان کے مسلسل اصرار کے بعد بین الاقوامی سطح پر منانے کیلئے دنیا کے تمام ممالک کو تلقین کی کہ بنیادی تعلیم اوّل تو مادری زبان میں ہو۔ انگریزی اور اردو بطور مضامین پڑھائی جائیں۔ پرائمری کے بعد، باقی تعلیم اردو میں دی جائے۔ اب ہم جائزہ لیں کہ دن تو ہم نے منا لیا۔ سب علاقوں کی زبانوں میں شعر و ادب بھی سن لیا۔ داد بھی دے دی اور ساتھ ہی شیخوپورہ سے آئی نئی شاعرہ کا خوبصورت کلام بھی سن لیا مگر واقعی صورتحال کیسی اور کیا ہے۔
بلوچستان کے علاقے کیچ میں، دیہات میں، اسکولوں میں خود جا کر دیکھا ہے کہ کلاس میں پانچویں تک کے بچّے بیٹھے ہیں۔ سب بچّوں کو پڑھانے کیلئے ایک استاد ہے۔ بچّوں کے ہاتھ میں کتاب اور قاعدہ ہے جو کہ اردو میں ہے۔ استاد بلوچی بول رہا ہے۔ بچّے بھی جواب بلوچی میں دے رہے ہیں البتہ کتاب اردو میں ہے۔ یہ صورتحال سوائے سندھ کے باقی تمام ملک میں حاوی ہے۔ بہت زور دے کر کہا گیا کہ قومی زبان اردو رکھو اور پرائمری اسکولوں میں مادری زبان میں پڑھایا جائے۔ بقول غالب ’اثر اس پہ ذرا نہیں ہوتا، اسکینڈے نیوین ملکوں کی مثال ہے کہ وہاں پاکستانیوں کے بچّوں کو پڑھانے کیلئے پاکستانی میٹرک پاس خواتین ملازم رکھی جاتی ہیں کہ وہاں کی قومی زبان کے ساتھ بچّوں کو مادری زبان میں بھی پڑھایا جائے۔ یونیسکو ہزار دفعہ یادداشتیں بھیج چکی ہے مگر نصاب بنانے اور خاص کر پرائمری اسکولوں میں تو ہر ضلع کی تاریخ پڑھائی جانی چاہئے۔ شیخوپورہ ہو کہ مالاکنڈ وہاں کے بچّوں کو اپنے علاقے کے اہم تاریخی مقامات، فلسفی، سائنسدان اور صوفیوں کے بارے میں علم ہو۔ ہم تو اگر حضرت خدیجہؓ کے بارے میں مضمون لکھتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ وہ زمانۂ جاہلیت میں بھی تجارت پیشہ خاتون تھیں۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے حضورﷺ کی رسالت کی تصدیق کی تھی۔ اِسی طرح بلھے شاہ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر نہا دھو کر ہی رب ملتا ہے تو پھر وہ تو مچھلیوں اور مینڈکوں کو ملتا۔ ہمیں ان اشاروں کی وضاحت اور تشریح کی ضرورت ہے۔ آج تک کسی بھی چینل پر علم اور انسان کو سمجھانے کیلئے بات نہیں کی گئی اور نہ نصاب میں صوفیا کے کلام کے ذریعے مذہب کی طریقت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔
آج تک گھروں میں مائیں لڑکے لڑکیوں کو گڑیاں بنانے یا ڈرائنگ کرنے پر یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ قیامت کے دن ان میں جان ڈالنا پڑے گی، اِسی طرح لوگ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے مجسموں پر معترض ہوتے ہیں کہ اسلام بت پرستی کے خلاف ہے۔ ہم لوگ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی پرستش تھوڑا ہی کرتے ہیں، ہم تو اُن کے مجسموں کو اِسی طرح فخریہ دیکھتے ہیں جیسے ایران میں سعدی اور حافظ کے مجسموں کو دیکھ کر لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے ثقافت کے نام پر بامیان کے تاریخی مجسمے کو توڑ دیا اور امریکیوں کی شہ پہ عراق اور شام کے تاریخی ورثے کو اِسی طرح تباہ کیا جیسا کہ افغانستان میں کیا گیا تھا۔ ہم اپنی سات ہزار سال پرانی تہذیب کی نہ قدر کرتے ہیں اور نہ ہی بچّوں کو کسی بھی میڈیا کے ذریعے تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
علم کے علاوہ ایک بنیادی تعلیم تہذیب کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بڑے، چھوٹے کا مرتبہ سمجھنے کی تہذیب، گفتگو کا فن سیکھنے اور دوسروں کی باتوں کے درمیان ٹوکنے یا بولنے کی کیا ممانعت ہے۔ بڑوں کا ادب اور سلام کرنے میں پہل۔ اب ہم سکھاتے ہیں بچّوں کو کہ یہ بتائو تمہاری Noseکہاں ہے، Lipsکہاں ہیں، چاہے وہ بچّہ کسی نائی کا ہو کہ کسی بیگم کا۔ ہمارے ملک میں تو لوگ ٹی وی پر ٹانگیں چوڑی کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے جوتے کا منہ آپ کی طرف ہے، ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’’زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے، دہن بگڑا‘‘۔ اِس میں غلطی اور کوتاہی سارے میڈیا والوں کی ہے۔ اب تو ہر چینل پر مزاحیہ پروگراموں کے نام پرمراثیوں کی حرکتیں، وہ بھی بازاری بہت مقبول ہیں۔ کہتے ہیں ریٹنگ اچھی ملتی ہے۔ کبھی میڈیا والے اقبال بانو سے عزیز حامد مدنی کی یا فیض صاحب کی غزل سنواتے تھے۔ آخر لوگ آج تک ان پروگراموں کو کیوں یاد کرتے ہیں۔ آج کل ہر شخص کو یہ شوق ہے کہ سیلفی بنائیں۔ آپ جس کے ساتھ سیلفی بنوا رہے ہیں، اس کو جانتے ہی نہیں۔ گزشتہ دنوں جمعہ کی چھٹی کئے جانے کی افواہ پھیلی۔ دنیا بھر میں ہفتہ، اتوار چھٹی ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں رہنا ہے تو اس کے آداب کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ اس کو بھی تہذیب ہی کہا جاتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ