آپ نے یہ ’کہاوت‘ تو سنی ہو گی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ میں اس میں ایک اور طرح کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جس نے منیر نیازی کو نہیں دیکھا اس کی باتیں نہیں سنیں، اس کی شاعری نہیں پڑھی، اس نے اپنی عمر کا کثیر وقت ضائع کیا۔
شکل وصورت سے کسی فلم کا ہیرولگتا تھا شعر کہتا تھا تو ہمیں وہ مناظر دکھاتا تھا جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے ہوتے تھے ۔ اپنے ان محسوسات میں شریک کرتا تھا جو ہمارے لئے مسحور کن ہوتےتھے۔ ایسے جملے کہتا تھا جو اس شخص کےساتھ چپک کر رہ جاتے تھے۔ اس بلا کے سنجیدہ شاعر کی حس مزاح ہی کمال کی تھی۔ منیر اپنے علاوہ کم کم کسی کو مانتا تھا ۔ ایک دفعہ اس کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی ماضی کے ایک یادگار ادبی ڈیرے نیشنل سنٹر لاہور میں ہو رہی تھی۔ صدارت فیض احمد فیض یعنی ادب کی بلند وبالا شخصیت کی تھی۔ ان دنوں کشور ناہید سنٹرکی ڈائریکٹر تھیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس ڈیرے کی رونق اور وقار اس وقت تک قائم رہا جب تک کشور اس کی ڈائریکٹر رہیں ۔
میں منیر نیازی اس کے اعزاز میں منعقدہ تقریب اور فیض صاحب کی صدارت کی بات کر رہا تھا۔ نیشنل سنٹر میں ایک کمی یہ تھی کہ اس میں ایک سو سے زیادہ افراد کی جگہ نہیں تھی چنانچہ بہت سے خوش قسمت لوگ ایسےتھے جنہیں کھڑا ہونے کی جگہ مل گئی تھی۔ ان خوش نصیبوں میں ایک میں بھی تھا۔ منیر نیازی تقریب کے دوران گاہے گاہے اسٹیج سے اتر کر کشور کے آفس میں چلے جاتے۔ شاید ’گرائپ واٹر‘ پینے جاتے تھے۔ اس آنے جانے کے دوران فیض صاحب اپنی صدارتی گفتگو کا آغاز کر چکے تھے۔ اس وقت وہ کشور کے آفس میں تھے باہر نکلے تو دیکھا فیض صاحب صدارتی اظہار خیال کر رہے ہیں۔ کھڑے ہوئے سامعین میں سے اسٹیج کی طرف راستہ بناتے ہوئے میرے قریب سے گزرے تو مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا اس ’گھٹو‘ (ٹھکنے) نے میرے خلاف کوئی بات تو نہیں کی ۔
اسلام آباد میں میرے عزیز مرحوم افسانہ نگار دوست محمد منشا یاد کو منیر نے اپنی کتاب پیش کی یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد منیر کی نظر اس پر پڑی تو وہ بےخیالی میں کتاب کی جلد کی نوک سے دانتوں میں پھنسی کوئی چیز نکال رہا ہے۔ اس کے بعد زندگی میں جب کبھی میں نے منیر کے سامنےمنشایاد کا ذکر کیا اس نے کہا تم اس ب ۔۔ کا ذکر کر رہے ہو جو میری کتاب سے خلال کرتا ہے۔ ایک دن ظہیر کاشمیری نے منیرسے کہا منیر جی چاہتا ہے چودھویں کاچاند ہو، ساقی جام پیش کر رہا ہو ، مطربہ ہو ، منیر نے جواب میں کہا ’ظہیر یہ سب کچھ ہو مگر تم نہ ہو‘۔
منیر نیازی متضاد رویوں کے حامل تھے۔ ’گرائپ واٹر‘ بھی پیتے تھے۔ جن دنوں شمع سینما کے علاقے میں رہتے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ صبح کوارٹر سپارہ کی تلاوت کرتے ہیں۔ ایک دن میرے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہے تھے، میں نے محسوس کیا کہ موٹر سائیکل ڈگمگا رہی ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ منیر دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے پورے جوش سے ’محمدؐ محمد ؐ‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ منیر داتا صاحب کے مزار پر گئے اور جو دعا مانگی اس کے الفاظ یہ تھے ’یااللہ محمد ؐ کے صدقے میری اور علی ہجویری کی لغزشیں معاف فرما‘۔ ہم میں سے شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ مزار پر اپنے علاوہ صاحب مزار کے لئے بھی دعا کی جاتی ہے ۔ کبھی کبھی ایسی بات بھی کر دیتے تھے کہ اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مثلاً ’حضرت عیسیٰ جن مردوں کو زندہ کرتے تھے، وہ بعد میں ان کے بیری ہو جاتےتھے؟‘
فیصل آباد کے ایک مشاعرے میں انور محمود، خالد ، ریاض مجید اور میں بڑی گپ شپ میں مشغول تھے۔ منیر بتانے لگے کہ ایک روز وہ اور صغریٰ گرمیوں کے دن تھے اور وہ صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک کونے سے سانپ نکل آیا۔ اس کے بعد وہ سانپ کی خوبصورتی بیان کرنے لگے ’کیا خوبصورت سانپ تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور وہ مستی کے عالم میں پھن پھیلائے ہوا کے دوش پر محو رقص تھا۔ مگر عورتیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ صغریٰ نے ڈنڈا اٹھایا اور اسے ہلاک کر دیا‘۔ ریاض مجید اے کلاس شاعر ہونے کے علاوہ اے کلاس جملے باز بھی ہیں۔ انہوں نے منیر کو مخاطب کیا اور کہا آپ کی اہلیہ نے سانپ اس لئےمار ڈالا کہ اس نے سوچا ایک گھر میں ایک ہی کافی ہے۔ منیر نیازی نے اپنی مخصوص ہنسی سے جملے کی داد دی اور پھر کیا حکیمانہ جملہ کہا ’سانپ کو مارنا نہیں چاہئے اس کا زہر نکال کر اسے ’گنڈویا‘ (کیچوا) بنا دینا چاہئے‘۔
ایک دفعہ منیر ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے امریکہ گئے۔ مشاعرے کے اگلے روز ایک مقامی شاعر نے منیر سے کہا میرے ساتھ چلئے میں آپ کو شاپنگ کرانا چاہتا ہوں۔ وہ انہیں ایک بڑے مال میں لے گیا اور شاپنگ شروع ہونے سے پہلے پریشانی کے عالم میں کہنے لگا ’ اوہو میں تو بٹوہ ہی گھر بھول گیا، میرا اے ٹی ایم کارڈ بھی اس میں تھا‘۔ اس پر منیر نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’ایک تم شاعر برے اوپر سے بٹوہ گھر بھول آئے ہو‘۔ ایک بار فیصل آباد کے ایک مشاعرے کے بعد میزبان نے لاہور منیر نیازی ، زاہد مسعود مرحوم اور قمر کو واپس لاہور چھوڑنے جانا تھا۔ عین وقت پر انہیں کوئی مجبوری آن پڑی اور انہوں نے ایک اور ادب دوست کو یہ ذمہ داری سونپ دی ۔ اس دن منیر صاحب کو بہت وافر مقدار میں ’گرائپ واٹر‘ سپلائی کیا گیا تھا بلکہ زاد راہ کے طور پر بھی ساتھ دیا گیا۔ جب گاڑی فیصل آباد کی حدود سے نکلی تومنیر نے اس ادب دوست کی طرف اشارہ کرکے کہا ’یہ وہی خبیث شخص ہے جس نے مجھے لےجانے سے انکار کیا‘۔ یہ سن کر اس شریف آدمی کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا ، میں نے منیر صاحب کو سمجھایا نہیں یہ وہ نہیں ہے۔ یہ تو آپ کا بہت مداح ہے ۔ یہ سن کر منیر صاحب اچھا اچھا کہہ کر دوبارہ گرائپ واٹر کی طرف ’رجوع‘ کر گئے۔
اس زمانے میں ابھی موٹر ویز کا جال نہیں بچھا تھا چنانچہ لاہور کا فاصلہ بہت طویل تھا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے تین دفعہ اس خبیث آدمی کو مخاطب کیا اور یہی جملہ دہرایا کہ یہ وہی خبیث شخص ہے۔ بہرحال اس دوران منیر صاحب نے اپنے اندر ’پانی‘ کی زیادہ سپلائی کا زور محسوس کرکے ایک جگہ گاڑی رکوائی اور ایک ڈھلان کے قریب بیٹھ گئے جب دس بارہ منٹ تک واپس نہ آئے تو میں اور زاہد گاڑی کے باہر آئے اور دیکھا ڈھلان سے ان کی ’الٹ بازی‘ لگی ہوئی ہے ان کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہیں جس پر بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی۔ انہیں اٹھا کر کار میں بٹھایا اور بیٹھتے ہی مجھے مخاطب کرکے کہا تم ہنسے کیوں تھے۔ اور ساتھ ہی کہا ویسے تم ٹھیک ہنسے تھے۔ اور آخر میں ڈرائیور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے لے جانے سے انکار کیا تھا‘۔
منیر کی نظمیں اور ان کی غزلیں دل پر ایک جیسا اثر چھوڑتی ہیں۔ ورنہ عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کی نظم اور کسی کی غزل بہت لاغرہوتی ہے۔ منیر کا پنجابی کلام ایک لحاظ سے ان کے اردو کلام کا ترجمہ ہے۔ اور یہ بات ان کی بعض پنجابی غزلوں میں زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ البتہ ان کی پنجابی کی نظمیں اس ’شرک‘ سے محفوظ ہیں جیسے:
سورج چڑھیا پچھم تُوںتے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگیا، کوئی وی کم نہ ہویا
(سورج مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں ڈوب گیا میرا آج کادن بھی ضائع گیا کوئی کام نہیں ہوا) ۔
اردو نظموں میں ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘ میری پسندیدہ ترین نظم ۔ مگر میں کیا کروں، میں ان کی شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت کا بھی عاشق ہوں۔ ان کی پر مزاح اور حکمت بھری باتیں یاد آتی ہیں تو میں چند لمحوں کے لئے ان کی شاعری کو بھول جاتا ہوں۔ ایک واقعہ تو ایسا ہے، جب یاد ہمیں آتا ہے تو اکیلے میں بھی ہنسی پر قابو نہیں پایا جاتا۔ ایک بار ہالینڈ سے میرے ایک مداح کنگ سائز اسکاچ کی بوتل لائے اور بہت عقیدت سے پیش کی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی کہ میں شراب نہیں پیتا۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید میں اپنے عیب ہر ایک پرظاہر نہیں کرنا چاہتا چنانچہ کہنے لگے کوئی بات نہیں آپ کسی میخواردوست کو پیش کر دیجئے ۔ میں نے بوتل رکھ لی اور سارے شہر پر نظر دوڑائی تو سب سے زیادہ موزوں شخصیت منیر نیازی کی صورت میں نظر آئی۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا شدید لو چل رہی تھی میں نے اپنی موٹر سائیکل نکالی۔ بوتل اخبار میں لپیٹی، مدنی جماعت کے امیر کی اس نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے شخص کے دل میں شیطانی خیالات آجاتے ہیں، ایک دوست کو پیچھے بٹھایا اور منیر کی رہائش گاہ ٹاؤن شپ چلا گیا۔ انہوں نے جب میرے ہاتھ میں اسکاچ کی کنگ سائز بوتل دیکھی تو بے ساختہ ارشاد فرمایا ’عطا تم طبیب ہو‘ اور فوراً گلاس میں انڈیل کر غٹا غٹ پینے لگے۔ اس پر میرے ساتھ آئے ہوئے دوست نے مجھے کہنی ماری اور آہستہ سےکہا ’مجھے بھی پیاس لگی ہے‘۔ میں نے منیر صاحب سےکہا کہ ایک گلاس اور لے کر آئیں میرا یہ دوست آپ کا ساتھ دینا چاہتا ہے۔ یہ سن کر منیر نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’تم نے آتے ہی ’منگ‘ ڈال دی ہے‘۔ کاش آپ سب لوگ اس جملے کا لطف لے سکتے۔ اسے آسان لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’ تم آتے ہی بھکاری بن گئے ہو‘۔
ایک بار شریف کنجاہی اور منیر نیازی ایک کار میں ہمسفر تھے۔ مشاعرہ کسی دور دراز شہر میں تھا۔ منیر مسلسل ایک بوتل کو منہ لگاتے اور دو تین گھونٹ لیتے۔ چنانچہ مثانوں پر زور پڑنے کی وجہ سے ہر تیس چالیس کلو میٹر کے بعد شریف صاحب سے کہتے گاڑی رکوائیے میں نے ’موتر‘ کرنا ہے۔ پنجابی کا یہ لفظ اس کے متبادل اردو لفظ سے شائستہ ہے۔ جب کافی فاصلہ طے ہو گیا تو منیر سے پوچھا ’شریف اور کتنا فاصلہ باقی ہے‘۔ شریف صاحب نے کہا ’بس دو موتر اور !‘
منیر نیازی مشاعروں میں بہت کم کسی کو داد دیتے تھے۔ ایک ریڈیو مشاعرے میں سب شاعروں نے ’جواب آں غزل‘ کے طور پر طے کیا کہ آج منیر کو کوئی داد نہیں دے گا۔ مشاعرہ شروع ہوا، منیر نے مطلع پڑھا اور شعرا کی طرف دیکھا مگر ادھر چپ جب دوسرے شعر پر بھی داد نہ ملی تو منیر نے تیسرا شعر پڑھتے ہوئے خود ہی کہا ’واہ منیر صاحب مکرر ارشاد‘۔ ظاہر ہے یہ سین ریڈیو مشاعرے ہی میں ہو سکتا تھا۔ منیر نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک مشاعرے میں عالمِ مستی برابر میں بیٹھے ایک بزرگ شاعر کے گھٹنے کو ہاتھ لگایا جس کا مقصد انہیں احترام دینا تھا۔ منیر نے بتایا کہ دوسری دفعہ وہ کسی وجہ سے خود ذرا جھکے تو اس بزرگ شاعر نے خود بخود اپنا گھٹنا اوپر کر دیا۔
منیر کی اہلیہ محترمہ کے انتقال پر شہر کے کم وپیش سارے نمایاں شاعر جنازے میں شرکت کیلئے گئے۔ منیر نیازی زار و قطار رو رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی ان کو دلاسہ دے رہے تھے۔ اتنے میں منیر کے ایک خاص نیازی قسم کے چچا نے اپنی کھڑک دار آواز میں کہا ’اوئے منیر خاں مرد رویا نہیں کرتے تمہارے لئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں‘۔ اس پر منیر کی آہ وزاری میں وقفہ آیا اور قاسمی صاحب سے کھلکھلاتے ہوئے کہنے لگے ’ندیم صاحب چاچا جی کی سنیں وہ کیا کہہ رہے ہیں‘۔ اور وفات کے چالیس دن پورے ہونے پر اکتالسویں دن دوسری شادی کر لی ۔ مجھے اپنی ایک خاتون ریڈر کا خط آیا کہ براہ کرم منیر نیازی کا ایڈریس بھیج دیں۔ میں ان کی اہلیہ کی تعزیت کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے اسے ایڈریس بھیجا اور ساتھ یہ مشورہ بھی کہ تعزیت کے علاوہ انہیں نئی شادی کی مبارک بھی دے دینا۔ بظاہر یہ بہت عجیب لگتا ہے مگر صاحب اولاد نہیں تھے اور اکیلا گھر انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا؟
ایک نوآموز شاعر نے منیر سے پوچھا ’سر آپ کے نزدیک شاعری میں میرا مقام کیا ہے؟ منیر نے جواب دیا ’ کاکے تم ابھی مقام کی پہلی میم تک نہیں پہنچے‘۔ ایک بڑبولے صاحب کے بارے میں ارشاد فرمایا ’یہ وہ اسکوٹر ہے جسے ٹرک کا ہارن لگا ہوا ہے‘۔ علامہ اقبال کی صاحبزادی ایک یوم اقبال کی تقریب میں موجود تھیں جس میں موسیقی کا پروگرام بھی شامل تھا ایک گلوکار نے یہ سوچ کر کہ اقبال کی صاحبزادی بھی محفل میں موجود ہیں ، اقبال کی غزلیں گانا شروع کر دیں جب وہ مسلسل علامہ اقبال ہی سناتے رہے تو اقبال کی صاحبزادی نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’ابا جی بہت ہو گئے اب کچھ اور بھی سناؤ‘۔ اور اب مجھے لگ رہا ہے کہ منیر نیازی بہت ہو گئے، اب مجھے آگے بھی چلنا چاہئے، اپنی زندگی کے گزرے ہوئے روزوشب کی بات بھی کرنا چاہئے۔
میں ابتدائی قسطوں میں اپنے گھر کے ماحول، اپنے بچپن، وزیر آباد کے آئینے میں ستر سال پہلے کے پاکستان کے عوام کے روز وشب بھی بیان کر چکا ہوں، جب کسی کے پاس کچھ نہیں تھا سب ایک ایسی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد بھی جو کہتے ہیں پاکستان نے ہمیں کیا دیا ! سو اب اپنے بارے میں بتانے کی بات یہی ہے کہ میں پہلے روز بھی کھلنڈرا تھا اور آج اپنی 82ویں سالگرہ کے روز بھی جوں کا توں ہوں۔ بور محفلیں، بور دوست نہ پہلے میری اولین پسندیدہ تھیں اور نہ آج ہیں۔ میں عوام کے ساتھ اور عوام کی طرح رہنا پسند کرتا ہوں۔ مگر میں عوام جیسی زندگی نہیں گزار رہا جس پر میں ایک طرف اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور دوسری طرف اس سے شکوہ کناں بھی ہوتا ہوں کہ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی ہر شہری کیلئے روزگار ، علاج اور رہائش کی سہولتیں کیوں نہیں ہیں۔ ہمارے گھریلو ملازمین اپنی اور ہماری طرز زندگی میں اور سہولتوں میں زمین آسمان کا تفاوت دیکھتے ہوں گے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ یورپ اور امریکہ میں غریب اور امیر چند معاملات میں یکساں زندگی گزارتے ہیں لیکن بہت جگہ فرق بھی ہے اور اتنے فرق پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چا ہئے ۔
اب اگر ’باہر‘ کا ذکر قلم پر آ ہی گیا ہے تو چلیں امریکہ میں گزارے ہوئے ماہ وسال کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ جوپہلا واقعہ بیان کرنے لگا ہوں اس سے دونوں معاشروں کے کلچر کا فرق بھی سامنے آجائے گا۔ سینٹ لوئیس میں میری ایک ہمسائی میرے پاس ا ٓئی اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو انتہائی خوبصورت تھی۔ اس کی والدہ کچھ پریشان سی لگتی تھی۔ چنانچہ کچھ دیر بعد وہ پھٹ پڑی اور بولی سریلین اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے مگر یہ کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ کلب نہیں جاتی۔ راتیں باہر نہیں گزارتی۔ یہ تو دن کے وقت بھی زیادہ وقت گھر پر ہی پڑی رہتی ہے۔ میں اس کی طرف سےسخت پریشان ہوں ۔ اور یہ کہتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا۔ اس کا رونا بجا تھا کہ وہ اس معاشرے میں رہتی تھی جس میں پلی بڑھی تھی، اس میں ایسے لوگوں کو ابنارمل سمجھا جاتا ہے۔ میں نے اس بی بی کو دلاسہ دیا اور اسے یقین دلایا کے ان شااللہ اسے ’راہ راست‘ پر لے آؤں گا۔ اس کے بعد میں نے سیریلین کو مخاطب کیا اور کہا تمہارے دروازے کے ساتھ میرا دروازہ ہے بجائے گھر پر بیٹھے رہنےکے تم میری طرف آ جایا کرو۔ پھر میں نے اسے وہ اوقات بتادیئے جن میں میں گھر پر ہوتا ہوں۔ سو اس نے میری طرف آنا جانا شروع کر دیا اور الحمدللہ صرف ایک ماہ میں وہ راہ راست پر آگئی۔ جس پر اس کی والدہ نے روز میری طرف آکر شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ شاید وہ خود بھی راہ راست پر آنا چاہتی تھی مگر میں نے پورے امریکہ کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا تھا۔
میں نے امریکہ میں پہلی جاب ایک فیکٹری میں مزدور کے طور پر کی تھی۔ یہ ایک فیکٹری تھی۔ میرے دائیں جانب انڈوں سے بھرے ہوئے کریٹ اوپر تلے دھرے ہوتے تھے اور میں یہ کریٹ ایک بہت بڑی مشین کے داخلی دروازے پر رکھتا اور آگے چل کر ان انڈوں کی سفیدی اور زردی الگ الگ ہو جاتی تھی۔ اس دوران میں بغیر کسی وقفے کے کریٹ اٹھاتا رکھتا ، اٹھاتا رکھتا، بازو اکڑ جاتے تھے۔ لنچ کیلئے وقفہ ہوتا تھا اور بے پناہ تھکاوٹ کی وجہ سے یہ وقفہ چند سیکنڈ سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا۔ میرے ساتھ ایک افریقن بھی کام کر تی تھی۔ میں اس وقت جوان جہان سرخ وسفید اور ہنسی مذاق کرنے والا نوجوان تھا۔ اور یہ عفیفہ بہت ہی رعایت سے کام لوں تو پچاس سے کم کی نہ تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہنے لگی تم مجھ سے دوستی کرلو، تو میں نے جواب دیا میں ایک بھلا مانس لڑکا ہوں۔ اس پر میں نے استغفراللہ بھی کہا۔ بلکہ اس کے چہرے کی سیاہ ترین رنگت کے حوالے سے ایک دفعہ لاحول ولا بھی پڑھا۔ اس دوران اس نے اپنا بٹوہ نکال کر مجھے دکھایا اور کہا بینک میں اس کے علاوہ بھی ہیں۔ میں نے کہا بی بی تم بہت پیاری ہو بہت سندر ہو مگر اس مسئلے پر پھر کبھی بات کریں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ ڈالروں کی چمک دمک بھی اس نوجوان پر اثرانداز نہ ہوئی تو اس نے بٹوے میں سے ایک بیس بائیس سالہ بیٹی کی تصویر بطور بونس مجھے دکھائی اور کہا میرے گھر آؤ ۔ میں نے مختصر جواب دیا کہ آؤں گا۔ میرے کالے کولیگ یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔ ہم لوگ تو اس پر فخر کرتے ہیں اگر کوئی حسینہ پلے سے پیسے بھی دے۔ مگر تم ایسا بیوقوف زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے ان کی اس بات کی بھرپور تائید کی۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)