حرام خور کو اپنا اصل نام یاد نہ تھا۔ گھر میں پیار سے بلانے کا رواج نہ تھا پر حقارت سے اس کو آواز دینے والوں کی کمی نہ تھی۔ دن رات حرام خور گھر والوں کے سامنے ہاتھ باندھے زر خرید غلام کی طرح ان کے حکم کی منتظر رہتی۔ وہ حرام خور اس لیے تھی کیونکہ وہ شادی کے بعد یکے بعد دیگرے تین بچیوں کو جنم دینے کا جرم کر چکی تھی۔ پہلی بار ہی بیٹی پیدا کرنے کے گناہ میں اس کو حرام خور کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد بس اتنا جانتا تھا کہ یہ کھا کھا کے حرام کرتی ہے کہ اس سے تو ایک بیٹا بھی جنا نہیں جاتا۔
حرام خور کی تیرہ برس کی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ وہی عمر جس میں بچیاں اپنی گڑیوں کی شادی بیاہ کرتی ہیں۔ اس کے گھر والے اپنا بوجھ اتارنے کی عجلت میں تھے کیونکہ وہ والدین کے گلے کا وہ طوق تھی۔ جس سے جلد از جلد چھٹکارا پایا جاتا ہے۔ شادی کے موقع پر لڑکیاں نت نئی چیزوں کی فرمائشیں کرتی ہیں۔ اور یہ کچھ نئے کھلونوں کی آرزو دل میں رکھے بیٹھی تھی۔ پھر وہ وقت آیا جب گڑیا سے کھیلنے کی عمر میں وہ اپنی گود میں اپنی ہی اولاد کو سنبھالنے کی کوشش کرتی تھی۔
محسن اور حرام خور کی شادی کو سات برس بیت چکے تھے۔ ان سات برسوں نے اسے زندگی کے بہت سے مشکل سبق پڑھا ڈالے تھے۔ ان دنوں وہ پھر سے اپنے پیٹ میں ایک معصوم کو لیے دن بھر سسرال والوں کی گالیاں کھاتی پھرتی۔ بیٹیاں پیدا کرنے کی سزا کے طور پر اکثر محسن اس کے بال نوچتے ہوئے طلاق کی دھمکی دیتا۔ حرام خور کے سسرال کو دن رات یہ غم تھا کہ ان کے بعد ان کے خاندان کا نام کیسے چلے گا؟ ان کا نام لیوا کون ہو گا؟
اس بار بھی ہر دفعہ کی طرح بیٹے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کئی جتن کیے جا رہے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی پیر کے آگے حرام خور کی پیشی ہوتی۔ نجانے کتنے پیر اس کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتے۔ سخت تناو میں آنے کے بعد جب وہ کسی کے آگے جانے سے انکار کرنے کی جرات کرتی۔ تو پھر اس حرام خور کی تهپڑوں اور جوتوں سے عزت افزائی کی جاتی۔ اس کے باوجود بھی وہ اگر منہ کھولنے کی کوشش کرتی تو محسن اس کے جبڑوں کو زور سے دبوچ ڈالتا۔ اس کو یہ بتانے کا موقع ہی نصیب نہ ہوتا کہ اس کو کس کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس اذیت کے بعد وہ تازہ دم ہو کر اپنے آپ کو نئی حاضری کے لیے تیار کر لیتی۔
حرام خور ایک پالتو جانور کی طرح ان کے ہر حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور تھی۔ وہ ان کے گھر کا ایسا جانور تھی جو انہوں نے اپنے کھونٹے سے باندھ رکھا تھا جب دل کیا جہاں دل کیا ہانکتے ہوئے لے جاتے۔ کبھی کسی نام نہاد فقیر سے حرام خور کے لیے تعویذ لاتے جو اس کو پانی میں گھول گھول کر پلائے جاتے۔ نجانے کیا کیا دم کر کے اس کو کھانے پر مجبور کیا جاتا۔ درگاہوں پر حاضری دی جاتی، منتیں ماننی جاتیں، چڑھاوے چڑھائے جاتے۔
اس بار بھی نو ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر وہ دن آن پہنچتا جب اس کو یہ ثبوت دینا تھا کہ اس کی نمک حرامی، نمک حلالی میں بدلی کہ نہیں۔ زچگی کے اس مرحلے میں بھی جب زندگی اور موت میں زیادہ فاصلہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ گڑ گڑا کے اپنے رب سے دعائیں کر رہی تھی کہ یااللہ بیٹا دے دے یا پھر مجھے اپنے پاس پناہ دے دے۔ شاید قبولیت کا کوئی لمحہ تھا یا خدا اس دن زیادہ رحیم تھا۔ کہاں کوئی دعا قبول نہ ہوتی تھی اور اس دن دونوں مان لی گئیں۔
ادھر بیٹے کے رونے کی پہلی آواز دنیا نے سنی ادھر اس کی سانسیں کمزور پڑنا شروع ہوئیں۔ ایک جان نے جنم لیا اور دوسری نے رخصت کی تیاری باندھ لی۔ حرام خور کی زندگی کے آخری لمحات میں محسن کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی تو وہ حرام خور کے کمرے میں دوڑا چلا آیا۔ محسن نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو اس کے کھوئے ہوئے نام سے پکارا پر آخری سانسیں لیتی، اپنے نام پر اس نے آنکھیں اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ وہ لفظ حرام خور کی اتنی خوگر ہو چکی تھی کہ باقی سب محبت اور پیار میں گندھے نام اس کو بھول گئے تھے۔
صدیوں بعد محسن نے بڑی محبت سے اس کے ہاتھ کو تھاما تو اس کے چہرے پر مایوسی کے علاوہ کوئی رنگ نہ جھلکا۔ محسن نے حرام خور سے برسوں بعد یہ پوچھا بول تجھے کیا چاہیئے؟ حرام خور نے اپنے نظریں اوپر کرتے ہوئے اپنی پہلی اور آخری خواہش پورا کرنے کی درخواست محسن کے سامنے رکھ دی۔ حرام خور بڑی ہی نحیف آواز میں بولی کہ “بس تو آج مجھ سمیت میری حرام خوری کے ثبوتوں کا بھی اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دے”۔ بڑی مشکل سے جملہ مکمل ہوا تو گردن ایک جانب ڈھلک گئی۔
محسن کے گرم ہاتھوں میں اس کی بیوی کا سرد ہاتھ شاید آج پہلی بار اس کو حرام خور کا مطلب سمجھا پایا تھا۔
(بشکریہ:ہم سب ۔۔ لاہور)