عدم استحکام کیا ہوتا ہے ؟
ضروری کام پسِ پشت ڈال کر غیر ضروری اور غیر اہم کاموں کو توجہ کا مرکز بنالینا۔ہوش کے ناخن گھس جا ئیں تو جوش ہی جوش باقی رہ جاتاہے،جبکہ زیادہ جوش کی ضرورت محاذِ جنگ پر ہوتی ہے ،نا کہ سیاست کے میدان میں ،سیاست میں جوش سے زیادہ ہوش چاہئے ہوتا ہے ۔ آگ دونوں جانب لگی ہوئی ہے ،مولانا نے کارزارِ سیاست میں جوش و جنون کی راہ اپنا لی ہے اور ہر طور اپنی انتخابی ناکامی کا بدلہ چکانے کے سخت موڈ میں ہیں ،شاید ان کی اسی روش کا اثر ہے کہ ن لیگ کے اچھے بھلے تجربہ کار سیاست کار بھی نجی محافل میں واشگاف الفاظ میں ان دعاوی پر اصرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ ” پی ٹی آئی حکومت چھ ماہ جتنی من
مانیاں کرنا چاہتی ہے کرلے بس پھر ہم سب مل کر اس کے اقتدار کی بساط لپیٹ دیں گے“
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور ناں ہی خواب دیکھنے کے لئے آنکھوں کا ہونا لازمی ہے ،لیکن حقیقت کے ادراک کے تقاضے اور پیمانے اور ہوتے ہیں ،وہ لوگ جو نئے پاکستان کا منظر نامہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کی رائے کچھ اور ہے ،وہ وجدان کی آنکھ سے بھی وقت کی چال کو دیکھ رہے ہیں اور اندازہ لگا رہے ہیں کہ بہر حال کچھ نیا ہونے جا رہا ہے ،اس ہونے کے امکان پر ایک سے زیادہ آراءہو سکتی ہیں ،مگر یہ ہر گز نہیں کہ کہ صورتِ حال میں کسی تبدیلی کے آثار دکھائی نہ دیتے ہوں ۔اس حوالے سے سوشل میڈیا جو خاک اُڑا رہا ہے ،وہ اس کے اپنے سر کے لئے کافی ہے ،جو دھول وہ عام لوگوں کی آنکھوں میں جھونکنا چاہتا ہے اس دھول مٹی سے اس کی اپنی آنکھیں خیرہ ہونے لگی ہیں ،کہ عمران خان کی سوچ عام فہم ہے جو عام آدمی کے حوصلوں کو تقویت مہیا کرتی ہے ،اس کے خیال و خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی وجہ محسوس ہوتی ہے ۔
کسی حاکم کے منہ سے نکلے الفاظ محکوموں کی ڈھارس بندھا دیں اتنا بھی کا فی ہوتا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان تو عملی اقدام پر بھی تُلے ہوئے ہیں اور افتادگانِ خاک کی دعائیں ان کی کامیابیوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے بہت ہیں
کہ محکوم جب حاکم کے حق میں دعا کرنے لگ جائیں تو حاکم کے اقتدار کی رسی دراز ہونے لگتی ہے یہ فطرت کا اٹل اصول ہے،تاہم آسمان کے رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی ،ایک پل میں خیال و خواب کی دنیا اجڑ بھی سکتی ہے ،کہ تقدیر کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں ۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے ،دوسرا رخ عمران خان کی ذات کو الگ کرکے ،حکومت کی اب تک کی کار کردگی کو جاننا ہے اور یہ تحریک انصاف کی حکومت کا تاریک رخ یا پہلو ہے ،جو وزیر اعظم عمران خان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگا،تاہم یہ امر پہلو تہی کے زمرے میں آتا ہے،ہیلی کاپٹر کے پچپن روپے پر کلو میٹر خرچہ سے لیکر اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کی سات منزلہ عمارت کے لیز پر دینے کے احکامات کانوٹیفیکیشن جاری کرنے تک ،حکومتی ترجمان نے حکومت کے دامن میں سبکیاں ہی سبکیاں بھرنے کا جو اہتمام کیا ہے اس سے وزیر اعظم کیسے نا آشنا ہونگے۔ ریڈیو کی عمارت تو قومی ورثہ ہے ہی کہ یہ اس ادارے کی عمارت ہے جس نے ہماری آزادی کا اعلان نشر کیا وہ آزادی جس کی خاطر لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ،آگ اور لہو کا دریا پار کرکے آنے والوں نے ریڈیو پاکستان ہی سے اپنی آزادی کا مژدہءجاں فزا سنا اور نئی رمق کے ساتھ زندگی کرنے کا عہد کیا،آخر کونسی ایسی مصیبت آن پڑی ہے کہ
ریڈیو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے چھ سو نوے کنٹریکٹ ملازمین کو بے روزگاری کے دشتِ بے اماں میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ،یہ وہ ملازمین ہیں جنہوں نے اپنی عمر کے پندرہ سے بیس سال اس ادارے
کی نذر کئے ہیں ،ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کرکے کونسی تبدیلی کے امکانات روشن کئے جا رہے ہیں ۔روہی کے علاقے بہاولپور سے لیکر کوہ ہمالیہ کی وادی اسکردو میں ریڈیو کے ذریعے گونجنے والوں کی آواز کا گلہ دبانے کی
کوشش کیوں کی جارہی ہے ،ایسے ناصائب فیصلوں کے مشوروں کے جال کون بُن رہاہے،کس نے حکومتی ترجمان کو حکومت کی بدنامی کے فیصلے کرنے کے اختیارات دیئے ہیں ،وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے
ترجمان کی عقل اور کتنے تماشے تراشے گی ،جن پر معافی تلافی کے بازار گرم رہیں گے،جگ ہنسائی مستزاد۔ پاکستان ٹیلی وژن ترقی کے ساتویں آسمان تک کا سفر کیوں نہ طے کر لے ،ریڈیو کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا ،ریڈیو اگر اتنا ہی غیر اہم ہوگیا ہوتا جتنا ہماری وزارتِ اطلاعات نے تصور کرلیا ہے ،تو وائس آف امریکہ،بی بی سی،آل انڈیا ریڈیواور ریڈیو چائنا اپنی اپنی بساط لپیٹ چکے ہوتے ،ریڈیو ابلاغ کا وہ ذریعہ ہے جو بات کو ان مقامات تک پہنچانے کی سکت رکھتا ہے جہاں پرندوں کی اڑان دم توڑجاتی ہے ۔
عدم استحکام کیا ہوتا ہے ؟ اداروں کو غیر اہم سمجھ لینا ،انہیں بے توقیر کرنا ،ان میں کام کرنے والوں کی بے قدری کرنا ،حکومتیں بے درد رویوں سے نہیں چلاکرتیں ،وزیراعظم عمران خان تو غریبوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں ،شوکت خانم کینسر ہسپتالوں کے پیچھے یہی جزبہ کارفرما ہے،نمل یونیوورسٹی میں کتنے نادار طلبا علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،ایسے ایسے لوگوں کے بچے جنہوں نے خواب میں بھی
اپنے بچوں کو انجینیئر بنے نہیں دیکھا ہوگا۔
فقط اسی پر موقوف نہیں ،حکومتی ترجمان سیاسی معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں ،حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان فیصلے سمیٹنے کی ذمہ داری ،اطلاعات کی وزارت کی ہوتی ہے ،جو حکومت کے پیغامات کو حزب
اختلاف تک اس طور سے پہنچاتی ہے کہ محبت ورواداری کے لہجے سے سرکردہ رہنما تو کیا عام سیاسی کارکنوں کے دل پسیج کر رہ جاتے ہیں ،اور وہ محبت واخوت سے بڑھے ہاتھوں کو رد کرنے والے سیاستدانوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کو حکومت چلانی ہے تو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ،کہ استحکام کا فقط ایک ہی راستہ ہے اس پر چلے بنا کوئی چارہ نہیں ،اداروں اور افراد کے درمیان بیگانگیت پیدا کر کے حکومت کے پہیے کورواں رکھنا ناممکن ہے ،اب تک کے کئے جانے والے اقدام استحکام کی راہ روکنے والے ہیں ،وزیر اعظم عمران خان کا وژن یہ نہیں کہ سیاسی نارسائی کے بیچ تعمیروترقی کی ایسی عمارت کھڑی کی جائے جس کی بنیادیں اتنی کمزور ہوں کہ سیاست کی تیز ہوائیں اسے اڑالے جائیں ،بائیس برس کی سیاسی جدوجہد اگر بائیس ماہ سے پہلے سب وتاژہوجاتی ہے تو یہ حکومتی ترجمان کے حسن کار کردگی کا شاخسانہ ہوگا،عمران خان کے سو دن سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے اقتدار کے سو دن نہیں ہونے چاہئیں جن کے خدوخال ظہور پذیر ہی نہ ہوسکے ۔
فیس بک کمینٹ