جلوس شاہی کے چالیس دن مکمل ہوئے۔ جالب نے کہا تھا، اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری / دو روز میں ہم پہ جو یہاں بیت چکی ہے۔۔ حکایت کہنے کا وقت تو خیر جب آئے گا، تو کہنے والے بہت کچھ سنائیں گے۔ ہمارے ساتھ المیہ ہی یہ رہا ہے کہ جب بات کہنے سے کچھ فائدہ ممکن ہو تو زبان بندی کر دی جاتی ہے اور جب ایک مدت گزرنے کے بعد اذن اظہار ملتا ہے تو بابا لوگ کندھے اچکا کر کہتے ہیں کہ یہ داستان تو بہت پرانی ہو چکی۔ یہ دعویٰ تو زائد از میعاد ہو چکا۔ اب میعاد کا قصہ بھی ستم سے خالی نہیں۔ گیارہ دسمبر 2013 کی شام ایک شہرہ آفاق قاضی القضاہ کے منصب کی میعاد ختم ہو گئی۔ قبلہ آٹھ برس تک تین مختلف وقفوں میں عدل کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اس بیچ دو دفعہ عبوری آئینی حکم یعنی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ سٹیل مل کی نج کاری میں رکاوٹ ڈال کر قوم کو اربوں کا نقصان پہنچایا۔ رات کے اندھیرے میں ملک و قوم پر قبضہ کرنے والے کو مع وردی صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔ پارلیمینٹ کی منظور کردہ آئینی ترمیم میں مداخلت کر کے دستور کے ارتقا میں ایک بارودی سرنگ رکھ دی۔ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو ایک خط لکھنے کا حکم نہ ماننے پر گھر بھیجا۔ اس واردات پر چھ برس گزر گئے، چھ ملین سوئس فرانک کی خبر نہ آئی ، البتہ 184 (3) کی ایک طرفہ تعبیر کا دروازہ کھل گیا۔ جب یہ سب ہو رہا تھا تو کہنے اور لکھنے والوں کے سر پر دستور کی شق 19 لٹک رہی تھی جس کے مطابق عدلیہ اور کچھ دوسرے ریاستی اداروں پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ سوال یہ ہے کہ دستور کی شق 19 ہمارے عمرانی معاہدے کے دو سو اسی اجزا پر محیط ایک مربوط تصویر کا حصہ ہے۔ جب اس عمرانی معاہدے یعنی دستور پاکستان کو بارہ صفحات کا ایک کتابچہ قرار دے کر کھڑکی کے راستے باہر پھینک دیا جاتا ہے تو شق 19 الگ سے نکال کے میز پہ تو نہیں رکھ لی جاتی۔ پنجابی زبان کا ایک محاورہ کہتا ہے کہ جہاں کشتیاں ڈوبی ہیں، ملاح بھی کہیں آس پاس ہی غرق آب ہوئے ہوں گے۔ اس الجھن کا کوئی حل نکالنا چاہئیے کہ دستور کی بالادستی کے لیے آواز اٹھانے والوں کو دستور ہی کی شق 19 نکال کے دکھا دی جاتی ہے۔ 11 دسمبر 2013 گزر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ شخص جسے ملکی تاریخ میں صاحب انکار کا درجہ دیا جا رہا تھا وہ تو محض ایک بلٹ پروف گاڑی کا طلبگار تھا۔ اب محترم بھائی سعد رفیق فرماتے ہیں کہ 2008 میں آصف علی زرداری کی بات نہ مان کر غلطی کی۔ مشکل یہ ہے کہ 2008 کے موسم بہار میں مسلم لیگ نواز عدلیہ کی آزادی پر لہلوٹ ہو رہی تھی۔ جنوری 2012 میں میاں نواز شریف نے میمو گیٹ سکینڈل کی آئینی درخواست لے کر عدالت عظمی کے دروازے پر دستک دی تو انہیں معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ قومی مفاد کا سنگین مجسمہ تو الف لیلی کی شہرزاد ہے جو ہر رات ایک نئی کہانی لیے نمودار ہوتی ہے۔ پو پھٹنے تک کہانی ادھوری رہ جاتی ہے لیکن شہرزاد کا وسیع تر منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں ایک ہزار ایک راتوں میں صاحب اقتدار کے سر سے خون آشامی کا جنون اتر گیا تھا یہاں ستر برس مکمل ہو گئے اور صدائے کن فیکون دما دم سنائی دیتی ہے۔ اب میاں نواز شریف جمہوری مفاد میں آصف زرداری کو پیام بھیجتے ہیں تو وہاں غمزے کا رنگ ہی اور ہے۔ نواز شریف نے کلام داغ سے فال نکالی ہے۔ داغ جا کے نہ پھرے سوئے عدم اپنے رفیق / ہم یہ سمجھے تھے کہ دم بھر میں چلے آتے ہیں۔ ادھر آصف زرداری احمد مشتاق کی کلیات کھولے بیٹھے ہیں۔ لالہ و گل بھی اک تسلی ہے / کون آتا ہے جا کے اتنی دور۔ ان دونوں کی کشمکش میں سنگت کا کچا دھاگہ کام نہیں دے پائے گا۔ ابھی نوائے جمہور پختہ نہیں ہوئی۔
نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم برادر اسلامی ملک کے دورے پر تشریف لے گئے تو خیال تھا کہ وہاں کہیں اس صاحب سیف کا جلوہ بھی دیکھنے کو ملے گا جن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تین برس پہلے پوری قوم کی زبان نہیں سوکھتی تھی۔ مگر…. ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔ اشارہ یہ مقصود ہے کہ جب یمین و یسار میں شکر گزاری کی ہوائیں چل رہی تھیں تو آرٹیکل چھ کی بالادستی کی خواہاں زبانوں پر شق 19 کا قفل لگا دیا گیا تھا۔ 27 نومبر 2017ءکے بعد اس کہانی کا معنی ہی ختم ہو گیا۔ اس دفتر بے معنی کو گائے کھا گئی۔ گائے کو قصاب نے ذبح کر لیا اور قصاب کہیں راستے میں مردہ پایا گیا بالکل ایسے ہی جیسے مخصوص مقدمات میں پراسیکیوٹر اور گواہ تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا؟ کوئی راؤ انوار ہو یا عابد باکسر ہو تو عدل کے ایوانوں میں حرف انصاف کا کوندا لپکے یہاں تو بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کے قتل کا استغاثہ ہے۔ یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔ قوم نے قائد محترم پرویز مشرف کی شرائط نہیں مانیں، تو انہوں نے وطن واپسی سے صاف انکار کر دیا۔ اس مرتبہ کمر درد کے بہانے کا تکلف بھی نہیں کیا۔ ادھر جو نااہل اور بدعنوان سیاستدان دستور پاکستان کو گردن میں حمائل کئے 13 جولائی کو وطن لوٹ آیا تھا، اسے 8 اکتوبر کو بغاوت کے الزام میں اصالتاً طلب کر لیا گیا ہے۔
نئے پاکستان کے معماروں نے قوم سے سو دن کی مہلت مانگی تھی۔ اب تک کی تصویر یہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے قوم سے ایثار کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اگرچہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ارسال کردہ اربوں ڈالر کی کوئی خبر نہیں۔ آٹھ راس بھینسیں نیلام ہونا تھیں ان میں سے چار نگ ایک سابق رکن اسمبلی ہانک کر لے گئے کہ ہم نے میاں نواز شریف کو ذاتی تحفہ دیا تھا، وزیر اعظم ہاؤس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ آپ کو یاد آیا کہ ’آب گم‘ میں حویلی والے بڑے میاں نے ریڈیو فروخت کیا تو خریدار ریڈیو کا ایریل باندھنے والی بلی بھی اکھاڑ کے لے گئے تھے۔ صاحبان منصب و جاہ کی قیام گاہوں کے قضیے ابھی حل طلب ہیں۔ اس بیچ پیرس، واشنگٹن، بیجنگ سے دہلی تک جگ ہنسائی کی خبریں آ رہی ہیں۔ ضمنی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے اس سے مہنگائی کا ریلا بھی آئے گا۔ اونچے درجے کے اس سیلاب میں قوم پنیر کے ٹکڑوں اور چائے کے ساتھ رکھے بسکٹوں پر کفایت شعاری کی مہریں لگا رہی ہے۔ اجنبی زبانوں کے لفظ اردو رسم الخط میں لکھے جائیں تو معانی کی حیران کن گرہیں وا ہوتی ہیں۔ گورا صاحب بہادر ہم کالے ہندوستانیوں کو ڈیم فول کہتا تھا۔ اس ڈیم فول میں ایک این (N) خاموش ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آزادی کے بعد سے بلڈی سویلین خاموش ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نونہال کڑے انتخاب کے بعد تربیت کے لیے کاکول پہنچتے ہیں تو جس پہلی روایت سے انہیں واسطہ پڑتا ہے وہ ریگنگ (Ragging) ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پرانے اور نئے کیڈٹوں میں اجنبیت دور ہو جائے۔ خود پہ ہنسنے کا ڈھنگ سیکھ لیا جائے نیز یہ کہ تربیت کی ممکنہ سختیوں سے شناسائی ہو جائے۔ اگر کوئی نووارد بچھیرا ریگنگ پہ احتجاج کرے تو اسے سمجھا دیا جاتا ہے کہ بوائز ریگنگ کیا کرتے ہیں۔ اڑچن اس میں یہ ہے کہ ماہ و سال کی گردش سے ریگنگ کی یہ روایت ہجے کی معمولی تبدیلی سے خوفناک سیاسی نتائج کا روپ دھار لیتی ہے۔ اردو میں ریگنگ اور رگنگ میں تمیز کیسے کی جائے؟ طریقہ ایک ہی ہے کہ جہاں کوئلوں پر ڈیم فول مہر لگ رہی ہو وہاں آرٹیکل چھ کو ڈیم کی مخالفت کرنے والے نیز اکتوبر 2016 میں ڈان لیکس کا مبینہ ارتکاب کرنے والے اجلاف کے لیے مختص کر دیا جائے اور قوم کو واضح لفظوں میں بتا دیا جائے کہ دستور مدون کرنے والوں کی منشا یہی تھی کہ آرٹیکل 19 میں نامزد اداروں کی اشرفیاں آرٹیکل چھ سے ماورا ہیں۔
فیس بک کمینٹ