ہمارے یہاں تاریخ لکھنے والوں نے آزادیءہند کے لئے جدوجہد کرنے والے علماءکے کردار کو پینٹ کرتے ہوئے کبھی انصاف نہیں کیا گیا ،مسٹرز کی لکھی ساری تاریخ بغضِ معاویہ کے زیرِاثر تحریر ہوئی،دریں اثنا مسلکی تعصب اور نظریاتی اختلاف بھی پورا سچ بیان کرنے میں سراسر مانع رہا،حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے علماءہی تھے جنہوں نے فرنگی
استبداد کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دی اور انگریز کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا ،اسی تحریک کے نتیجے میں نو آبادیاتی استعماریت کا خاتمہ ہوا اورناصرف ہندوستان آزاد ہوا بلکہ پاکستان بھی معرض وجود میں آیا۔
آزادیءہند اور آزادی پاکستان کی اس جدوجہد میں تمام مسالک کے دینی حلقوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لیا، قیامِ پاکستان کی تحریک اور بعد ازاں پاکستان کی عزت و حرمت کے لئے بے دریغ قربانیاں دیں،استعمار کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کے لئے نواب حیدر علی ،شیرِمیسور ٹیپو سلطان ،نواب سراج الدولہ،حافظ رحمت خان شہید،کے علاوہ مسلمانوں کی ایک غیو ار جماعت آغاز ہی سے سرگرمِ عمل رہی ،جس نے عوام کو استعمار کے عزائم اور ارادوں سے آگاہ کیا،اس جماعت کی قیادت محدث دہلوی امام الہند شاہ ولی اللہؒ فرما رہے تھے۔شاہ صاحب ؒ کا شمار نہ صرف ممتازعلماءہند میں ہوتا تھا بلکہ وہ ایک عظیم مفکراورقابلِ قدر دانشور بھی تھے ،انہوں نے ایک صد ی قبل مستقبل کے حالات و واقعات بارے نشاندہی کر دی تھی اور ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے طریقے بھی تجویز کر دیئے تھے ،مگر افسوس کہ ان کی تحریک اور جدو جہد کو ایک مذہبی سرگرمی سے سوا کوئی اہمیت نہ دی گئی ،نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان استعمار کے پنجہءاستبداد کی غلامی کے چنگل میں پھنس گیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز ؒ نے اپنے والد کے ارتحال کے بعد ان کی گرانقدر جدوجہد کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور برطانوی استعماری حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا،انہوں نے اول اول مختلف راجاﺅں کو خطوط کے ذریعے متحد و یکجا ہونے پر اکسایا ، فتاویٰ عزیزی میں رقم طراز ہیں” یہاں رﺅساءنصاریٰ کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے ،ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اور ہندوستانی رعایا ،خراج،وہاج ،مال تجارت پر ٹیکس ،ڈا کوﺅں اور چوروں کو سزائیں،مقدمات تصفیئے،جرائم کی سزائیں وغیرہ ( ان تمام
معاملات میں ) یہ لوگ بطورِ خود حاکم اور مختارِ مطلق ہیں،ہندوستانیوں کو ان کے بارے کوئی دخل نہیں “
شاہ عبدالعزیز ؒ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیکر نوآبادیاتی استعمار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ،ان کے علاوہ سید احمد شہید ؒ نے بھی راجاﺅں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ،گوالیار کے راجا ہندو راﺅ کو لکھا ” جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیس سمندر پار رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں ،بڑے بڑے امیروں کی امارت،بڑے بڑے اہلِ حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے،جو حکومت و سیاست کے مردِ میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں “
یہ صدا ہندوستان کے ان سچے اور محبِ وطن باسیوں کی تھی ،جنہوں نے برصغیر کی آزادی کو اپنا دین و مذہب سمجھا،شاہ عبدالعزیز ؒ کے بھتیجے شہیدِ اعظم شاہ اسماعیل کے جذبہ حب الوطنی سے لبریز جملوں کا وزن ملاحظہ کریں،
” منصبِ امامت “ میں لکھتے ہیں ۔” ان کو جڑ(انگریزوں کو) اکھاڑ پھینکنا عین انتظام ہے اور ان کو فنا کر دینا عین اسلام ہے ،ہر صاحبِ اقتدار کی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے “
یہی ولولہ اور جذبہ سید احمد شہیدؒ کی جماعت میں موجزن تھا،انیسویں صدی کی ابتدا میں مسلمانوں کی تنظیمی صلاحیت، عسکری قابلیت ،معاملہ فہمی اور تدبر کا جو بچا کھچا سرمایہ تھا اسے سید احمد شہید ؒ احسن طریقے سے بروئے کار لائے،وقتی پیش آنے والی ناکامی نے ان کے حوصلے پست نہیں کئے،انہوں نے اپنی تحریک سے اہلِ ہند کے اندر سرفروشی اور جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے میں مثالی کردار ادا کیا،ان ہی کے رفقائے کار کے لہو سے ہندوستان کی آزادہ کا پودا تناور درخت بنا،روشن خیال موئرخین نے اس جدوجہد کو بھی مذہبی رنگ دیکر وہابی کے لقب سے بدنام کیا۔مگر ان کی شہادت کے ٹھیک چھبیس برس بعد اٹھارہ سو ستاون کا انقلابی طوفان برپا ہوا اسے بھی غدر سے تعبیر کیا گیا،جنگِ آزادی جس کی قیادت بھی برصغیر کے جید علمائے کرام نے فرمائی،حاجی امداداللہؒ ،مولانا قاسم نانوتویؒ،مولانا رشید احمد گنگوہی،مصطفی خان شیفتہ اور ڈاکٹر وزیر خان کے علاوہ بہت سارے دیگر علماءنے اس جدوجہد آزادی استعمار کو اپنے لہو پسینے سے سینچا۔
تاہم جو عزت و عظمت اور شہرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے مقدر کاحصہ بنی وہ لازوال بھی ہے اور بے مثال بھی،انہوں نے ” ریشمی رومال تحریک “ کی صورت میں استعمار مخالفت کا ایسا منصوبہ ترتیب دیا جس نے برطانوی حکومت کی نیندیں حرام کر دیں۔