میں بار بار دھرنا سیاست کے بارے میں سوچتا ہوں اور ہر بار میرے دماغ میں مظلوم کشمیریوں کے چہرے گھوم جاتے ہیں، سڑکوں پر پڑی بے گورو کفن لاشیں ،اپنے بچوں پر وحشی انڈین فوجیوں کے تشدد پر بلکتی ،دھاڑیں مار مار کر روتی مائیں ،خون آلود چہرے لئے احتجاج کرتے نوجوان اور ایک ہندو صحافی عورت کے یہ الفاظ ” انڈین فوجیوں نے کشمیر کی لڑکیوں کو کشمیری سیب جان لیا ہے ،جو ان سے دونوں طرح سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں “یہ سارے منظرسب تصویریں اور ظلم کی تدبیریں جو رات دن دنیا بھر کا میڈیا دکھا رہا تھا،جس کی وجہ سے امریکہ ہی نہیں پورے یورپ میں کشمیریوں کے حق میں اور بھارتی فوج کی بہیمیت کے خلاف نفرت کے جذبات ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ،فرانس ،جرمنی،ترکی،ایران اور دیگر ممالک میں تشویش کی لہر اٹھ رہی تھی،مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارے کے مناظر چاروں اور نظر آتے تھے،کوئی زبان ایسی نہ تھی جو کشمیری عوام کے دکھ درد کی مالا نہ جپ رہی ہو،،ہر دل میں یہ قلق کہ کشمیری مسلمان تاریخ کے سب سے بڑے اور بدترین جبر کے دور سے گزر رہے ہیں ،ان کی جان ،مال ،عورتیں اور عصمتیں کچھ بھی محفوظ نہیں ،پاکستان کے بوڑھے ،نوجوان اور بچہ بچہ جان مال کی قربانی کے لئے آمادہ و تیار۔
اچانک وہ شخص جس نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر کروڑوں کی تنخواہ لی ،کروڑوں ہی کی مراعات ،گاڑیاں ،ہوائی سفر اور نہ جانے کیا کیا کچھ اس مد میں کھایا اور کمایا ۔وہ سیاہ آندھی کی طرح میڈیا پر چھا گیا،کشمیر کاز اس کی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھ گیا ،بھارتی فوج کے جبر اور ظلم و ستم پر اس نے اپنے جبہ و دستار کی چھایا کردی ،وہ شخص جو بھارت کے
دورہ پر جب بھی گیا ،پاکستان کے وجود سے ہمیشہ شاکی نظر آیا،کشمیری عوام کے غم کے لمحات میں ،بھارتی جنگی جنون کے ایام بد میں ،صفِ دشمناں میں جا کھڑا ہوا ،ملک میں بد امنی اور انارکی پھیلانے پر تُل گیا،اسے سرحدوں پر منڈلاتے خطرات نہیں سجھائی دیئے ،مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے بار بار انکار کے باوجود یہ دھرنا سیاست پر بضدہے،جیل میں پڑے میاں نواز شریف کا کیا ہے ،وہ مودی دوستی کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں ،ا ن کے لئے پاکستان کی سلامتی کبھی بڑا مسئلہ نہیں رہا،پاک فوج سے اس کی نفرت بھی ڈھکی چھپی کبھی نہیں رہی،خود ساختہ جلا وطنی کے دنوں متحدہ عرب امارات میں نجی محافل میں وہ صاف الفاظ میں پاک فوج کی کردار کشی کرتے،متوالے اس پر واہ واہ کرتے کچھ ایسے بھی تھے جن پر یہ ناخوشگوار گزرتا،اس بارے موصوف کے بغض اور کینہ پروری بے مثال و بے نظیر ہے۔
تاہم مجھے میاں شہباز شریف کی بیرون ملک نجی محافل میں شرکت کے متعدد مواقع میسر آئے،میں نے ان کے منہ سے اپنے ملک اور پاک فوج کے بارے میں کبھی ایسی بات نہیں سنی جس میں بغض و عناد یا نفرت کا پہلو عیاں ہو،میاں نواز شریف جسے قسمت نے تین بار اس ملک کا وزیر اعظم اور دو بارملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا ،مگر اس کا سینہ ،خالص حب الوطنی کے جذبات سے سرشار نہ ہوسکا ،اس کی آنکھیں اپنی دھرتی میں اگنے والے دکھوں پر کبھی نمناک نہیں ہوئیں،بھلے اسے اپنے دور اقتدار میں کارگل سے دست بردار ہونا پڑا،لداخ کے فوجی کیمپوں میں ہمارے نوجوانوں کی کھوپڑیاں اُڑ رہی تھیں اور موصوف امریکی صدر کے ایما پر فتح کیا ہوا سارا علاقہ بھارت کو دان کررہے تھے۔
ہزیمت کی اس داستان پر سے ایک نہ ایک دن ضرور پردہ اٹھے گا ،پھر آمر پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کی اصل حقیقت لوگوں پر آشکار ہوگی،پھر وہ جو انکی سیاست کا دم بھرتے ہیں ،ان کے جان نثار ہونے پر فخر کرتے ہیں انہیں منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔
پی پی پی کی سیاسی حکمتِ عملی اپنی ہے، وہ اپنے سارے پتے یک مشت نہیں کھیلتی،سابق صدر آصف علی زرداری انتہائی زیرک سیاستدان ہیں ،سیاست کی بساط پر وہ اپنی ہرچال بڑی مہارت کے ساتھ چلتے ہیں ،شہ مات سے بچے رہنا ان کا اہم وصف ہے ،دھرنا سیاست کے مدعی سپنوں ہی میں اقتدار کے حصول پر شاداں و فرحاں ہوئے جاتے ہیں،مگر زرداری خوابوں کی بساط پر نہیں حقیقت کی بساط پر مہرے چلاتے ہیں ، صبرو استقلال کے ساتھ،ان کے شخصی اوصاف سے ہٹ کر (جن سے مجھے کچھ غرض نہیں) ان کی سیاسی بصیرت کا کون قائل نہیں و معترف نہیں ،یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف بھاری اکثریت رکھنے کے با وجود بھی ہر مشکل مرحلے میں ان ہی کے آستانے پر حاضری سے سرخروئی کارا ز پاتے۔
کوئی بعید نہیں کہ عمران خان بھی کسی روز زرداری ہی کی پچ پر کھیلنے جا کھڑے ہوں ۔زرداری جو ابھی تک دھرنا سیاست کرنے والوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے سے گریزاں ہیں ،یہاں تک کہ بلاول کو اذِن گویائی سے بھی ،تو اس کے پیچھے بھی راز ہے ،اسی حکمت عملی پر شہباز شریف بھی عمل پیرا ہیں۔ ہٹ دھرمی اور ضد سے سیاسی معاملات نہیں چلا کرتے،یہ بات تو ہزیمت کے کرب میں مبتلا صاحبِ جبہ و دستار بھی جانتے ہیں،پر نہ جانے اب کی بار کس گھمنڈ میں ہیں ۔۔! انہیں معلوم نہیں ہے کہ کوئی اوپر والا ان پر جتنا بھی مہربان ٹھہرے ،یہاں کے عوام اتنے مہربان نہیں کہ اقتدار بھی صدقہ و خیرات میں دے دیں۔