اندھا تعصب اور بے لگام نفرت انسان کے وقار اور عزت کو مجروح کر دیتے ہیں ،یہ احساس کی بیداری ہوتی ہے جو انسان کو اپنے اندر پیدا ہونے والے ان امراض سے آگاہ کرتی ہے،تاہم اس کا تعلق جذبے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ،جو اگر نفرت سے لت پت ہوتولاعلاج ہوتاہے ۔
ان دنوں ہمارے سیاسی قائدین ایسی ہی کشمکش کا شکار ہیں ۔ان کی انگلی قومی مسائل کی نبض پر نہیں بلکہ وہ اندھے تعصب کے گھوڑوں پر سوار بگ ٹٹ دوڑتے چلے جارہے ہیں ،انہیں کچھ خبر نہیں کہ قوم کرب وبلا کے کس دور ابتلا سے گزر رہی ہے ،اس کے درد کی دواکیا ہے؟اس پر مستزاد وہ نابغے ہیں جو عوام کے کانوں میں زہرناک خبریں پیشین گوئیوں کی صورت انڈیلنے میں مصروف ہیں ۔کل جو کپتان کے قصیدے لکھتے تھے اس کے وژن کو بس آسمانی صحیفہ کہتے نہیں تھے مگربین السطور ان کا مدعا یہی ہوتا تھا ۔آج انہیں کا دعویٰ ہے کہ کپتان اپنی ناکام اننگ کھیل کر فارغ ہونے کے قریب ہے اور جسے اس کی جگہ لایا جارہا ہے وہ ایک بدنام زمانہ شخص ہے جو 2008ءسے 2011ءتک امریکہ میں پاکستان کا سفیررہا۔24فروری 2018ءمیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ” میمو گیٹ اسکینڈل “ کے سلسلے میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر جس کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے،وفاقی تحقیقاتی ادارے نے انٹرپول کو خط لکھ کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
نابغہ روزگار صحافی نے انتہائی ذمہ دار اور باوثوق ذرائع سے اس کے وزیر اعظم بنائے جانے کا دعویٰ کرکے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک پر برف کا دبیز پھاہا رکھ دیا ہے۔پی ڈی ایم جو پچھلے کچھ عرصہ سے پانی میں مدھانی مار رہی ہے اس کی بے مقصدیت اور بے معنویت کے طشت ازبام ہونے کی راہ ہموار کردی ہے۔
پی ڈی ایم وہ سیاسی اتحادہے جو متضاد نظریات اور مختلف بیانیوں کی حامل جماعتوں پر مشتمل ہے اس نے بے پر کی اڑانے والے صحافی کے بے بنیاد دعوے پرتاحال کسی رائے کا اظہارنہیں کیا ،اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ گیارہ جماعتوں کے سیاسی اکابر کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ زمام اقتدار کس کے ہاتھ جاتی ہے ،ان کا مدعا بس یہی ہے کہ جمہوری طریقہ سے آئی اس حکومت کا خاتمہ ہو جس میں پی ڈی ایم کے سربراہ کی ذاتی نمائیندگی نہیں ہے۔اب اگر خدانخواستہ جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے تو نو جماعتوں کے اتحاد پی این اے کی طرح پی ڈی ایم اقتدار میں کسقدر حصہ پاتی ہے اس کا کچھ پتہ نہیں ۔تاہم ایک امر طے شدہ ہے کہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک جس نے تحریکِ نظام مصطفےٰ ﷺ کاروپ دھار لیا تھا اسے جب آمرکے قدموں میں ڈھیر کردیا گیا تھا تو دینی سیاسی جماعتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیاتھاجونصف صدی کے لگ بھگ عرصہ گزرجانے کے باوجود بحال نہیں ہوااور مولانا کو پی ڈی ایم کا سربراہ بنواکر پی پی پی انہیں اسی موڑ پر پھر سے لا کھڑا کرنے کی تگ و دو میں ہے کہ و ہ دینی جماعتوں کو یہ یاددہانی کراسکے کہ وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتیں ،انہیں سیکولرپارٹیز کے جھوٹے برتن میں وہ کھانا پڑے گا جو اُن کی تحریکی قوت کے لئے زہرِ ہلاہل کی حیثیت رکھتا ہے۔
زمین و آسمان جتنا ماتم کریں ان کا ضمیر نہیں جاگ سکتا جو اقتدار کے نشے میں چور ہیں ،جوکھلم کھلا الحادی نظریات رکھنے والی جماعتوں کے دست وبازوبنے ہوئے ہیں فقط اپنی سیاسی عاقبت کے خواب کی حسین تعبیر کے حصول کے لئے۔کوئی قوم پرست سیاسی رہنما لاہور کے جلسے میں پنجاب پر طعنہ زنی کرے یا کوئی ریاست میں مذہب کے عمل دخل کاقائل ہی نہ ہو اور نظامِ زندگی کا آخری مرع مغربی جمہوریت کو گردانتا ہو ۔انہیں کوئی پروا نہیں ۔
دینی سیاسی جماعتوں میں جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان دوہی جماعتیں ہیں جن کے پاس ووٹ بھی ہے اورتحریکی قوت بھی مگر یہ دونوں اپنے اکابر کے افکارونظریات سے بغاوت پر مصر ہیں ۔اس بغاوت کی سزا1977ءمیں شروع ہوگئی تھی مگراسے باور نہیں کیا گیا ۔دینی مدارس کے طلباءکی قوت پر جنہیں ناز ہے وہ اپنی اس قوت کو دینی انقلاب کے لئے کبھی تیار ہی نہیں کر سکے ،اسے فقط سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔
آج پھر دینی مدارس کے ہی معصوم طلباءکے سروں کی فصل کٹوانے کے سارے حیلے بہانے ہیں ،جنہیں پل بھر میں ایک ناعاقبت اندیش صحافی نے سبوتاژ کرنے کا عندیہ دیکر سراسیمگی کی سی فضا پیدا کردی ہے ۔اس دلخراش پیش گوئی سے وہ کپتان کو کسی آگہی کے لمس سے آشنا کرنا چاہتا ہے یا پی ڈی ایم کو سیاست کا نیا چلن سکھانے کی سعی کی ہے ۔
فروری آنے ہی والا ہے،پی ڈی ایم استعفوں کی چال میں بے نیل ومرام ٹھہری،اب عدم اعتمادکاہتھیار آزمانے کی سعی میں کامیابی حاصل کرتی ہے یا بد شگونی کی رُت پاکستان کا مقدر بنتی ہے کہ سیاسی سکائی لیب کا گرنا یہاں کبھی خارج ازامکان نہیں رہا۔واللہ اعلم
فیس بک کمینٹ