مذہبی دانشور مولانا وحیدالدین کا تعلق انڈیا سے ہے مگر وہ ایک بین الاقوامی شہرت کی حامل ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے دین اسلام کو سائنس کی روشنی میں پرکھنے ،سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس کام کے لئے انہوں نے اپنی ساری زندگی لگا دی ہے ۔بعض معاملات میں دین کی فہم رکھنے والے دانشوروں نے ان سے اختلاف بھی کیا جو معاملات کی گرہیں کھولنے کے لئے ہے نہ کہ مسائل کو دقیق بنانے اور ان میں الجھاؤ پیدا کرنے کے لئے ۔کسی بھی نظریئے یا آدرش پر مثبت اختلافات کے در کھلے رہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے مخفی پہلو اجاگر ہوں ۔زوال امہ کی بحث نئی نہیں ہے تاہم اس پر بات چیت کے دروازے شروع دن سے کھلے ہیں اور قیامت تک کھلے رہیں گے ۔
مولانا وحیدالدین کے موضوعات میں یہ سب سے اہم موضوع ہے وہ سائنس کی روشنی میں منطقی نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سہل پیرایہ اظہار میں بات کرتے ہیں ۔امت مسلمہ کے دور زوال سے متعلق ”الرسالہ“ فروری2014ءمیں رقم طراز ہیں ”امت مسلمہ کے دور زوال کے بارے میں حدیث کی کتب میں بہت سی روایتیں ہیں ،ان میں سے ایک روایت ہے کہ اسلام کے حلقے ” زنجیر“ ٹوٹتے رہیں گے ،ایک کے بعد دوسری کڑی ،جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی ماندہ کڑی سے جڑجائیں گے ۔پہلی کڑی جو ٹوٹے گی وہ ”الحکم “ ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی وہ ”الصلوة“ ہے ۔” حکم“ اقتدار اور نماز دونوں کا ایک ڈھانچہ formہے اور ایک اس کی روحsprit۔اس حدیث میں جس چیز کے ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ حکم وصلوة کی اسپرٹ ہے نہ کہ ظاہری فارم ،یعنی اقامت عدل موجود نہ ہوگا جو حکومت کااصل مقصود ہوتا ہے ،اسی طرح نمازیوں کے اندر خشوع کی کیفیت موجود نہ ہوگی ،جو کہ نماز کی اصل حقیقت ہے۔“
کسی امت کے اوپر زوال کا دور اچانک نہیں آ تا بلکہ تدریجی gradualطور پر آتا ہے ۔تدریجی زوال کی بِنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے اس سے مایوس ہوجاتے ہیں وہ زوال کی حالت کو درست حالات تصور کرنے لگتے ہیں،اس زوال کو دوسرے الفاط میں تحویل تدریجی gradual shiftکہا جا سکتا ہے یعنی ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچ جانا ۔مذکورہ حدیث میں دراصل تمثیل کی زبان میں اسی تدریجی تحویل کو بتایا گیا ہے ،جس کی چند صورتیں یہ ہیں۔
1۔آئیڈیالوجیکل اسلام سے کلچرل اسلام کی طرف۔
2۔تدبر قرآن سے تلاوت قرآن کی طرف۔
3۔امن سے تشدد کی طرف ۔
4۔آخرت پسندی سے دنیا پرستی کی طرف ۔
5۔حقیقت پسندی سے تصنع کی طرف
6۔امت سے سیاست کی طرف
7۔سادگی سے تکلفات کی طرف
ان سات امور پر غور کیا جائے اور پوری امت مسلمہ کے اعمال و افعال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت پوری وضاحت کے ساتھ عیاں ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں امت کے علماءاور سوچنے سمجھنے والے طبقات کس نہج پر کام کر رہے ہیں ۔ان کی فکری جہتیں کون کونسی ہیں ۔اپنی ان جہتوں کے حوالے سے وہ دین اور دینا کو کیا نفع دے رہے ہیں ،ان کے اس نفع سے نسل نو کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ۔اتحاد امت کی راہیں کس نوع کا فروغ پا رہی ہیں ؟
ان سات نکات میں سے پانچ کو چھوڑ تے ہوئے دو نکات پر آگہی کے حصول کی سعی کر تے ہیں اول ”حقیقت پسندی سے تصنع کی طرف“ ،حقیت اور تصنع کے درمیان کیا فرق ہے اورفرق کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے من حیث القوم کن نقصانات سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے ۔دو پل کو امت کو ایک طرف رکھ دیں ،امت کے ایک فر دکی اس بارے کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں انہیں پر غوروفکر کریں تومعلوم ہوتا ہے بحیثیت مسلمان ہم اپنی شخصی ذمہ داریوں سے گریزاں ہیں ،ہم حقیقت کے معنی و مفاہیم سے بہت دور ہوگئے ہیں ۔رسوم و رواج اور ثقافتی طور اطوار میں اپنے تہذیبی ورثوں کو گم کر چکے ہیں ۔ہمیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ تشخص کیا ہوتا ہے اور اسے کس طریقے سے قائم رکھا جانا چاہیئے ،یہ ذمہ داری فرد سے قوم اور قوم سے امہ تک کیا تقاضے رکھتی ہے ۔ہم عام نوعیت کے معاملات میں بھی حقیقت پسندی سے چہرہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں خاص طور پر دوسروں سے واسطے کی صورت میں اپنے مجموعی ماحول کو تصنع کا لبادہ اوڑھا دیا ہے ۔ہم دو رخی زندگی بسر کررہے ہیں اندر باہر کے فرق نے ہماری زندگی کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے ۔تسلیم ورضا کے جذبے کے فقدان نے ہم پر ایک مایوسی طاری کی ہوئی ہے اسی لئے ہمارا قومی نصب العین کمزور ہوتا جارہا ہے یہ سب حقیقت سے روگردانی کا شاخسانہ ہے ۔ہمارے اندر سے امہ کا تفاخر مفقود ہوگیا ہے وہ تفاخر جو ہمیں دینی ورثے نے عطا کیاتھا۔
ثانیاََ امت سے سیاست کی طرف رحجانات کا مطالعہ کریں تو ایک واضح تصویر سامنے آجاتی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر خود چنگیزیت مسلط کی ہوئی ہے ۔ہماری سیاست ایک امت کی سیاست نہیں بلکہ گرہ بندی اور عصبیت پروری کی دوڑ دھوپ ہے جس میں نظریےئے اور فکر کا کوئی عمل دخل نہیں ،جبکہ ہمارے سیاست دان بازی گر ہیں ،الٹ پھیر ان کا بنیادی فلسفہ ہے ۔ان کے دل میں ودماغ میں فقط اقتدار ہے جس کی رسہ کشی میں انہیں قوم اور امہ کا تصور یاد ہی نہیں رہا ۔دینی سیاسی جماعتیں جو امت کے معانی کا ادراک رکھتی ہیںان کے زعماءبھی امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے پتوار بننے کے لئے تیارنہیں ۔پاکستان جو ایک خاص نظریئے کی بنیاد پر قائم ہوا اس نظریئے کے تشخص کی نہ دینی سیاسی جماعتوں کو فکررہی اور نہ ہی دیگرسیاسی جماعتیں اس نظریئے کی وارث بنیں ۔یوں امت کا تصور سرے سے غیب ہوگیا اور وہ جو قیام پاکستان کا ایک روحانی پہلو تھا وہ سیاست کی میراث رہا ہی نہیں ۔اگر اس میراث کی فکر دامن گیر رہتی تو ” نیل سے لیکر تابہ خاک کاشغر“کاخواب شرمندہ تعبیر ہونے سے محروم نہ رہ جاتا اورنہ ہی دنیا بھر کے اسلامی ممالک تقلید مغرب میں گھائل ہو جانے کی روش کا شکار ہوتے۔
امت مسلمہ کے زوال کے یہی اسباب ہیں جنہوں نے ہمیں دین و دنیا کی کامیابیوں سے دور کردیا ہے ۔آپ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دور زوال میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط“۔اب وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے ۔واللہ اعلم باالصواب۔
فیس بک کمینٹ