ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء (تحقیق جدید یکم دسمبر 1923) کو انبالہ ہندوستان میں پیدا ہوئے جب لاہور کو مسکن بنایا تو زندگی کی 21 بہاریں دیکھ چکے تھے ان کی شاعری میں ہجرت کا موضوع ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ہجرت خواہ عارضی ہو یا مستقل یہ ایک محسوس ہونے والا عمل ہے ہجرت صرف اپنے مولد سے بچھڑنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب و تمدن کو کھو دینے کا المیہ بھی ہے۔ اس طرح ہجرت اور تقسیم کے اثرات کی داخلی کیفیتوں کی نمائندگی ناصر کاظمی سے بہتر کسی اور جدید غزل گو نے نہیں کی۔ ناصر کاظمی نے غزل میں ایسی خوشبو پیدا کی جو گملے تک محدود نہیں رہی بلکہ دیوار چمن عبور کر گئی۔ ناصر کاظمی کی غزل میں یہ احساس اس وقت شدت اختیار کر گیا جب آپ انبالہ چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے ۔
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
انہوں نے آزادی کے ہنگام کو دیکھا جو اپنے ساتھ صد ہا اقسام کے آلام لایا تھا اور سامنے کے مناظر آگ اور خون میں لپٹے ہوئے تھے۔ موت کا رقص ہر طرف جاری تھا جو پورے ماحول کو خوں رنگ بنا رہا تھا۔
جہنیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں
ناصر کاظمی کی غزل زمانے کی آواز بن کر سامنے آئی اور انہوں نے ایسا علامتی انداز اختیار کیا جو اردگرد کی اشیاء، مظاہر اور علائم کا ترجمان بھی تھا اور عکاس بھی۔ ناصر کاظمی کی غزل نے ایرانی علائم و رموز میں ظاہر ہونے کی بجائے اپنا بندھن گرد و پیش کے ماحول کے ساتھ باندھ لیا اور یوں اس زمین کے باس کو غزل میں سمجھ لیا جو شاعر کے پاؤں سے مس کر رہی تھی ۔
شمس الرحمان فاروقی اپنے تحفظات کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں
"وہ (ناصر کاظمی) فراق اور فیض وغیرہ سے بہت مختلف آدمی ہیں اس کی دلیل ان کا عشقیہ رویہ ہے جو زمانے کے دیگر غموں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ نکتہ یہ ہے کہ عشقیہ شاعری ہونے کے باوجود ان کی شاعری متروک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے طرح طرح سے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ صرف اپنی طرف سے بول رہے ہیں”۔
ان کی آرا کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ ناصر کاظمی کے ہاں غزل کا ایسا پیکر تعمیر ہونے لگا جو سابقہ ادوار کی غزل سے مختلف تھا اور اس غزل سے ناصر واحد متکلم میں بات کر رہا تھا۔ دوران طالبعلمی ناصر کی شاعری خوب پروان چڑھ رہی تھی۔ ناصر کاظمی جب اقبال ہوسٹل میں رہتے تھے اسی دوران رفیق خاور جیسے اساتذہ ان کو ملنے آتے تھے شعر و شاعری اور بحث و مباحثہ کی محفل گرم کرتے
ناصر کاظمی نے والدین کی وفات کے بعد قلم قرطاس کو اپنے معاش کا وسیلہ بنایا کیونکہ وہ شاعر کی حثیت سے معاشرے میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ ناصر کاظمی سرطان کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث میو ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ وہ 2 مارچ 1972ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے
مجھ سا پھر کوئی نہ آئے گا یہاں
روک لو مجھ کو اگر روک سکو
ناصر کاظمی کی وفات پر انتظار حسین نے "مشرق” میں تعزیت نامہ کچھ یوں لکھا
” اوپر کبوتر چکر کاٹ رہے تھے اور نیچے میت سج رہی تھی میت اٹھنے کا وقت جوں جوں قریب آتا جاتا تھا کبوتروں کی پرواز میں اضطراب پیدا ہوتا جاتا تھا۔ ناصر کاظمی کی میت کبوتروں کے سائے میں گھر سے نکلی”
ٹی ہاوس کے باہر ایک تعزیتی نوٹس چسپاں تھا جس پر ناصر کا یہ شعر لکھا تھا
وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مرگیا وہ
Urdu Home