محترم تارڑ صاحب آج ہم نے ملتان میں آپ کی سالگرہ منائی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ اپنی کتابوں کے درمیان، کیک کاٹتے ہوئے، اور مسکرا کر ہم سے باتیں کرتے ہوئے، اور یہ سوال کرتے ہوئے کہ تم اپنی نئی کتابیں کب شائع کر رہے ہو۔ تارڑ صاحب پروگرام کے مطابق تو ہمیں آج لاہور ہونا تھا۔ آپ کی سالگرہ کا کیک آپ کے ساتھ کاٹنا تھا، لیکن پھر سنگ میل سے افضال بھائی کا فون آیا کہ تارڑ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں اور انہوں نے اپنی سالگرہ کی تقریبات منسوخ کر دی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تارڑصاحب کا دوستوں کو پیغام ہے کہ آپ ابھی لاہور نہ آئیں۔ جب میں صحت یاب ہو جاﺅں گا تو آپ کو خود بلاﺅں گا۔ ہم جو بہت جوش و خروش کے ساتھ آپ کی 78 ویں سال گرہ منانے کے لئے لاہور آ رہے تھے اس پیغام کے بعد اداس ہو گئے ۔ سب سے زیادہ مایوسی آپ کے پرستار قیصر عباس صابر کو ہوئی جو آپ سے ملنے کے لئے بہت بےتاب اور پر جوش تھا، اور وہ اس لئے زیادہ پر جوش تھا کہ وہ پہلی بار آپ سے ملاقات کرنے والا تھا۔ اور اس کی خوشی دیکھ کر مجھے 1993ء یاد آرہا تھا جب مجھے پہلی بار شاکر نے بتایا تھا کہ ہم سب کے چاچا جی ملتان آ رہے ہیں اور وہ کتاب نگر پر بھی آئیں گے اور تقریبات میں بھی ہم ان کے ساتھ شرکت کریں گے ۔ مجھے خوشی کے مارے کئی روز نیند نہیں آئی تھی اور میں سوچتا رہا تھا کہ تارڑ صاحب کے ساتھ کیسے بات کروں گا، ان کے ساتھ کون کون سے سوال کروں گا۔ اور یہ جو قیصر ہے نا یہ سفر نامے بھی لکھتا ہے، آپ کے متاثرین میں سے ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ہمیشہ متاثرین میں گھل مل جاتے ہیں،نامور شخصیات کی طرح روکھے روکھے،اکھڑے اکھڑے اور اجنبی دکھائی نہیں دیتے، سو قیصر کئی روز سے بار بار پوچھتا تھا کہ ہمیں کتنے بجے لاہور جانا ہے اورمجھے بتاتا تھا کہ تارڑ صاحب سے کون کون سے سوالات کرنے ہیں۔ یکم مارچ کو دن کا آغاز ہوا تو فیس بک پر آپ کے چاہنے والوں کی جانب سے مبارکباد کے لاتعداد پیغامات اور آپ کی تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ آپ کی کتابوں کے ٹائٹل، آپ کے سفرناموں کے اقتباسات دن بھر نظر کے سامنے رہے۔شاکر حسین شاکر نے جب آپ کی سالگرہ کے پیغامات اپنی فیس بک پر لگائے تو جی چاہا کہ آج کے دن میں بھی کچھ تحریر کروں۔کمپیوٹر پر بیٹھا اور چند سطریں ہی لکھی تھیں کہ مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں اور آپ سے باتیں کر رہا ہوں۔تحریر کو ادھورا چھوڑا اور سوچا کہ کیوں نہ وہ تقریب ہم ملتان میں منعقد کر لیں جس کے لئے ہمیں لاہور جانا تھا۔ ملتان ٹی ہاﺅس اور ادبی بیٹھک میں ہم مختلف ادیبوں، شاعروں کی سالگرہ مناتے رہتے ہیں تو کیوں نہ اس مرتبہ تارڑ صاحب کی سالگرہ بھی منائی جائے اور اس موقع پر خود تارڑ صاحب بھی ہمارے درمیان موجود ہوں۔ دوستوں سے مشورہ کیا تو ان کا سوال تھا کہ آج تارڑ صاحب ملتان میں اپنی سالگرہ کی تقریب میں بھلا کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ وہ تو شاید لاہور کی تقریبات میں بھی شرکت نہیں کر رہے۔ میراجواب یہ تھا کہ میں جو بات کر رہا ہوں وہ میں نے تارڑصاحب سے ہی سیکھی ہے کہ محبت کرنے والوں کے لئے زمان و مکان کی قید کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور اگر ہمیںدعویٰ ہے کہ ہم تارڑ صاحب کے ساتھ محبت کرتے ہیں تو وہ آج ہمارے درمیان ہوں گے ، جیسے وہ اپنی قوت متخیلہ کی بنیاد پر ایک ہی جست میں زمان ومکان کے فاصلے طے کر لیتے ہیں۔ وہ جہاں موجود ہوتے ہیں وہیں رہتے ہوئے کسی اور مقام پر بھی تو چلے جاتے ہیں۔ اور پھر وہ وہاں ایسے موجود ہوتے ہیں جیسے وہ خیالوں میں نہیں حقیقت میں وہیں ہوں اورجسے چاہتے ہیں اسے اپنے پاس بلا کر اس کے ساتھ ایسے ہی مکالمہ کرتے ہیں جیسے وہ ان کے سامنے بیٹھا ہو۔ سو ہم بھی انہی کے بھتیجے ہیں ہم نے انہیں ہی پڑھ پڑھ کر لکھنا سیکھا، سو اگر ہم آج ٹی ہاﺅس میں ان کی سالگرہ منائیں گے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب بھی اس سالگرہ میں موجود ہوں گے۔ وہ ہمارے ساتھ کیک کاٹیں گے، گفتگو کریں گے اور ہم نے جو وقت ان کے ساتھ لاہور میں گزارنا تھا وہی ٹائم ملتان ٹی ہاﺅس میں گزار لیں گے۔۔اور تارڑ صاحب اب جب میں یہ تحریر مکمل کر رہا ہوں میں ابھی ملتان ٹی ہاﺅس سے واپس آیا ہوں۔ ہم نے آج وہاں آپ کے ساتھ بہت سی باتیں کیں، آپ کی سالگرہ کا کیک کاٹا اور آپ کو پھول پیش کئے۔ ملتان ٹی ہاﺅس کی میز پر کیک کے اردگرد آپ کی کتابیں سجی ہوئی تھیں، ہر کتاب سے آپ جھانکتے تھے، ہر کتاب سے آپ کی آواز سنائی دیتی تھی، اور آپ ہم سے گفتگو کرتے تھے ۔سالگرہ کی اس تقریب میں سب سے زیادہ خوشی کا اظہار قیصر عباس کر رہا تھا جو آپ سے ملنے کےلئے لاہور جانا چاہتا تھا مگر ہم نے آج ملتان ٹی ہاﺅس میں ہی اس کے ساتھ آپ کی ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ شاکر حسین شاکر، نوازش علی ندیم، خالد مسعود خان، ارشد بخاری، اسرار چودھری، مسیح اللہ جام پوری، راشد ڈوگر اور دیگر دوست بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اور جب کیک کاٹنے کا موقع آیا تو خالد مسعود خان نے کہا کہ یہ کیک کوئی ایک فرد نہیں کاٹے گا، ہم سب مل کر تارڑ صاحب کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں کیونکہ ہم سب تارڑ صاحب سے محبت کرتے ہیں ہم سب ان کے پرستارہیں۔ اور پھر اسی دوران آپ ڈاکٹر عباس برمانی سے مخاطب ہوئے اور آپ نے کہا برمانی تم میرے شاگرد ہو لیکن اب تم نالائق ہوتے جا رہے ہو، عباس برمانی نے مسکرا کر جواب دیا مرشد چند روز سے میرے بازو میں فریکچر آیا ہوا ہے جیسے ہی میں ٹھیک ہو جاﺅں گا آپ کا شکوہ دور ہو جائے گا آپ نے قہقہ لگایا اور شاکر کی طرف دیکھ کر کہنے لگے شاکر ڈاکٹر عباس برمانی ہمیشہ لاجواب کر دیتا ہے۔ لگتا ہے یہ پھر کہیں پھسل کر بازو تڑوا بیٹھا ہے۔ ڈاکٹر اگرچہ چوٹی زیریں میں آرام کر رہا ہے لیکن وہ بھی تو آج کی تقریب میں آپ کے ساتھ موجود تھا۔
فیس بک کمینٹ