اکتوبر 1958 ء میں ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو جسٹس رستم کیانی مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ پورے ملک میں فضا ایسی تھی کہ سوچنے سمجھنے والے دل گرفتہ تھے اور گلی کوچوں میں ہاﺅ ہو سے شوق رکھنے والوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ فرمان امروز تھا کہ حضرت قائداعظم کے بعد دس برس کی آہ و زاری کا جواب افلاک سے ایوب خان کی صورت نمودار ہوا ہے۔ پان سگریٹ کی دکانوں پر باقاعدہ پوسٹر لگائے گئے جن میں حضرت قائداعظم کی شبیہ کے پہلو بہ پہلو جنرل ایوب کے سر پر قراقلی ٹوپی رکھ کر گلے میں پھولوں کے ہار ڈال دیے گئے تھے۔ بہت کم ایسے تھے جو ہار اور طوق میں فرق جانتے تھے۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا ، ’ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے‘۔ ن ۔ م راشد نے سوال کیا تھا کہ ’اے تمام لوگو…. کہ میں جنہیں کبھی جانتا تھا …. کہاں ہو تم؟‘۔ جسٹس رستم کیانی نے اس صدا پر لبیک کہا ۔ رستم کیانی نے فارسی اور انگریزی ادب کے استعاروں میں بجھا کر ایسا ایسا کاٹ دار جملہ آمریت پر ارزاں کیا کہ اردو نثر میں کیانی کے طرز فغاں کو ’کیانیات ‘کا نام دیا گیا۔ کیانی صاحب نے ایک جگہ لکھا کہ وہ ایک بوڑھی عورت کے استغاثہ کی سماعت کر رہے تھے۔ فیصلہ سنایا گیاتو ضعیفہ کی توقعات کے برعکس تھا۔ اس نے کمرہ عدالت سے نکلتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ یہ پھر عدالت تو نہ ہوئی ۔ جسٹس رستم نے بڑھیا کو واپس بلایا اور کہا ’اماں جی آپ سے کس نے کہا ہے کہ یہ عدالت ہے۔ یہ تو کچہری ہے‘۔ کیانی صاحب قانون کا فلسفہ سمجھتے تھے ۔ انصاف کے تصورات پر عبور رکھتے تھے۔ کیانی صاحب ہی نے ڈوسو کیس میں جسٹس منیر کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیلسن کا نظریہ ضرورت تو انقلاب کے ہنگامے سے تعلق رکھتا ہے۔ آئین کی موجودگی میں نظریہ ضرورت سے جواز تراشنا محض لاقانونیت کو تاویل فراہم کرنا ہے۔ انصاف ، قانون ، عدالت اور کچہری کی یہ بحث اس وقت آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے ایک ٹویٹ سے برآمد ہوئی ہے۔ 5 اپریل کو برطانیہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ پانامہ کیس میں عدالت کا فیصلہ فوج کو قبول ہو گا۔ اس بظاہر غیر متنازع اور اصولی مؤقف کے نتیجے میں درون خانہ کیا ہنگامے برپا ہوئے ، ہم ان سے آگاہ نہیں ہو سکتے ۔ تاہم آٹھ اپریل کو آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک وضاحتی ٹویٹ میں کہا گیا کہ فوج پاناما کیس کے انصاف اور میرٹ پر فیصلے کی منتظر ہے۔ اس ٹویٹ سے پانی گدلا ہوا۔ پاکستان کے سب شہری عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے پابند ہیں ۔ عدالتیں قانون کے تابع ہیں ۔ قانون سے مطابقت رکھنے والا فیصلہ ہی انصاف کا تعین کرتا ہے۔ کسی بھی تنازع میں فریقین کا مؤقف ان کی اپنی نظر میں انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ انصاف کے تعین پر اختلاف کے باعث ہی عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے۔ عدالت شواہد اور قانون کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ بوڑھی عورت اپنے مؤقف کی تائید مانگنے عدالت تک پہنچی تھی۔ جسٹس کیانی کو فیصلہ قانون کی روشنی میں دینا تھا۔ قانون کو ہماری نیت سے تعلق نہیں ۔ قانون تاثر سے بے نیاز ہے۔ قانون ہمارے موضوعی مؤقف کو معروضی تناظر سے ہم آہنگ کرنے کا طریقہ کار ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ ساری قوم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ریاست کے ایک ادارے کو خاص طور پر اپنا مؤقف بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔اس کا پس منظر سمجھنے کے لیے تاریخ میں کچھ پیچھے جانا ہو گا۔ برصغیر پاک و ہند پر نوآبادیاتی حکومت کے دو سو برس میں انگریزوں کی افرادی قوت کبھی تیس ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکی۔ قانون آزادی ہند کی منظوری کے وقت بھی ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ اور برطانیہ کی کل آبادی صرف چار کروڑ تھی۔ غیر ملکی حکمرانوں کے لیے اتنی کم تعداد کے ساتھ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے دو ہی ذرائع تھے۔ مقامی افراد پر مشتمل فوج اور پولیس ۔ نو آبادیاتی نظام میں فوج اقتدار کا سرچشمہ تھی۔ برطانیہ سے آنے والے سول انتظامی اہلکار ، تاجر اور پادری درجہ بندی میں کہیں نیچے آتے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد تک کسی ہندوستانی کے لیے فوج میں کمیشن حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ داخلی امن و امان کا بندوبست پولیس کے سپرد تھا اور اس کا کام تشدد اور جبر کے ذریعے مقامی آبادی کو محکوم رکھنا تھا۔ نوآبادیاتی نظام میں حکومت اقتدار کا نشان تھی اور عوام محکوم ۔ اقتدار فوج اور پولیس کی طاقت سے قائم رکھا جاتا تھا۔ آزادی کی لڑائی محض اس لیے نہیں تھی کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں نندا لال اور عبدالکریم آکے بیٹھ جائیں۔ آزادی کا مفہوم عوام کی حاکمیت کا اقرار تھا۔ عوام حکمران ہوں تو فوج اور پولیس سمیت حکومت کا نصب العین شہریوں کا تحفظ اور ترقی قرار پاتے ہیں ۔ آزادی حاکم اور محکوم کی لکیر ختم کرنے کا نام ہے۔ اگرآپ ناراض نہ ہوں تو عرض کیا جائے کہ 12 مارچ 1949ء کو ہم نے حاکمیت کے اصول پر خاک ڈال دی۔ حاکمیت یا تو عوام کی ملکیت ہوتی ہے یا کسی بھی بلند تر تصور کی آڑ میں شخصی اقتدار قائم کیا جاتا ہے۔ عوام کی حاکمیت سے انکار ہم نے کر دیا ۔ غلام محمد اور سکندر مرزا سے ہوتے ہوئے ایوب خان تک کا سفر ناگزیر تھا۔ عوام کی حاکمیت سے انکار آئین کی بالادستی سے انحراف کا اعلان ہے۔ آپ چاہیں تو اسے نظریہ ضرورت کہہ لیں۔ جنرل ضیاء اور پرویز مشرف دو ٹوک سوال کیا کرتے تھے کہ پاکستان زیادہ اہم ہے یا آئین؟ کینیڈا والے شیخ الاسلام بھی یہی نقارہ بجاتے تشریف لائے تھے کہ سیاست نہیں ، ریاست بچاﺅ۔ آزاد ریاست کو آئین کے تسلسل اور سیاسی عمل پر اعتماد سے مفر نہیں۔ 31 جولائی 2009 ء کو ٹکا اقبال کیس کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے انصاف کے آئین اور قانون سے ماورا تصور کو رد کر دیا تھا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے علمی حلقوں میں قانون اور انصاف کے تعلق پر بحث جاری رہی ہے۔ 1958ء میں کیمپ ایلن نے Aspects of Justice لکھی۔ 1951 ء میں پوٹر (Potter ) نے Quest for Justice لکھی ۔ایچ ایل ہارٹ نے 1962 ء میں Concept of Law لکھی۔ جان رالز نے 1971ء میں A Theory of Justice لکھی۔ قانون کے طریقہ کار اور انصاف کے تصور میں یہ بحث بنیادی طور پر ڈیوڈ ہیوم اور عمانویل کانٹ میں تقابل پر مبنی رہی ہے۔ ڈیوڈ ہیوم نے انصاف کے طریقہ کار پر زور دیا جبکہ کانٹ کسی تنازع میں فریقین کی صورت حال کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ جان رالز نے آزادی اور مساوات میں ممکنہ سمجھوتے کا امکان پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی تنازع کے فریق منصفانہ انتخاب کے اصولوں کی روشنی میں تصفیے تک پہنچ سکتے ہیں۔ 2010ء میں امرتیاسن نے اپنے استاد جان رالز کے نقطہ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سماجی انصاف کو قطبی یعنی سیاہ اور سفید کے پیمانوں پر طے نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی انصاف کے درجے ہوتے ہیں اور انہیں تاریخی تسلسل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید اصول قانون میں انصاف کی اس بحث کو قانون کے طریقہ کار کے تابع رکھا گیا ہے۔ انصاف کی کسی مثالی اور تجریدی صورت کی تلاش بند گلی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں عدالت پر غیر مشروط بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہمیں فرمان کی بجائے فراست کی طرف بڑھنا چاہیے۔ عدالت کا راستہ کچہری سے ہو کر گزرتا ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ