کیا زمانہ یاد آ رہا ہے۔آج اور کل کے حالات میں تو زمین آسمان کا فرق پڑ گیا ہے۔ اخلاقیات، نظریات، عادات، د ینیات اور سیاسیات سب کا سیاق و سباق بدل گیا ہے politics
اب اصلی معنوں میں polite tricks بن گئی ہے۔
ریاکاری، یو ٹرنز، گالم گلوچ اور نہ جانے کیا نام دیا جائے یہ سب باتیں سنجیدہ، دیانتدار ذہنوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ میرے والد سید محمد قسور گردیزی کی سیاسی اصول پرستی میں حسینیت کی روح، نیلسن منڈیلا کی استقامت، ویتنامیوں، فلسطینیوں اور کشمیری حریت پسندوں کا ولولہ شامل رہا۔ اصولوں پر اتنے کار بند تھے کہ نہ کرسی کی لالچ میں آئے نہ بڑے عہدوں سے متاثرہوئے- بہت سارے واقعات میں سے ایک واقعہ ان کی حقیقی سوچ اور commitment کا آئینہ دار ہے۔
ہمارے اکلوتے ماموں مخدوم سجاد حسین قریشی گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے ۔ گورنر ہاؤ س میں قیام کے دوران وہ کبھی کبھار رات گئے پرائیویٹ چھوٹی کار پر اپنی ہمشیرہ ( میری والدہ) کو ملنے اور قسور گردیزی سے گپ شپ کیلئے بغیر پروٹوکول اور سکیورٹی کے لاہور میں ہمارے گلبرگ والے گھر تشریف لاتے تھے۔ اس گھر کو بلوچستان کے گورنر میر غونث بخش بزنجو کی بھی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔
ایک بار جب میر صاحب لاہور تشریف لائے تو مصطفیٰ کھر گورنر پنجاب لاہور ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کے لیے آئے لیکن میر صاحب قسور گردیزی کی کار پر ان کے ساتھ گلبرگ ھاوس میں یہ کہتے ہوئے روانہ ہوگئے کہ میں اپنے مستقل بلوچستان ہاؤ س کی بجائے عارضی گورنر ہاوس میں کیوں رہوں ؟
مخدوم سجادحسین قریشی کی گورنری دوران ہم کئی بار لاہور گئےاور اکثر والدہ اور عزیزوں کے ہمراہ مخدوم صاحب کو ملنے گورنر ہاوس جانا ہوتا اور کئی بار گورنر ہاوس میں ان کے ساتھ دعوت اور ان کے پاس چائے پینے جاتے رہتے تھے۔ مخدوم صاحب کا ہمیشہ یہ اصرار رہا کہ قسور گردیزی بھی کبھی ان کے پاس گورنر ہاوس میں آکر چائے پیئں۔
لیکن قسور گردیزی نے گورنر ہاوس جا کر اپنے قریبی رشتہ دار کی یہ خواہش پوری نہ کی اور ہم سب کے اصرار کو بھی نظرانداز کر دیا جب قسور گردیزی کی پوری فیملی نے اور بالخصوص گورنر کی ہمشیرہ اور ہماری والدہ نے مخدوم صاحب کو گورنر ھاوس نہ ملنے کی وجہ پوچھی تو قسور گردیزی نے برملا اقرار کیا کہ مخدوم صاحب میرے قریب ترین عزیز ہیں، میں ان کا بے حد احترام کرتا ہوں اور نہ ہی ان سے ملنے میں مجھے کبھی کوئی عار محسوس ہوتی ہے- لیکن گورنر ہاوس ان کی سرکاری رہائش گاہ ہے ۔ گورنر ہاوس داخل ہوتے وقت ہر شخص کے کوائف، نام اور وقت آمدورفت درج کیا جا تا ہے۔ کئی صدیوں کے بعد جب مورخین تاریخ پاکستان میں حقیقی حزب اختلاف کا کردار لکھیں گے اور پاکستان کے نظریاتی اصول پرست سیاستدانوں کا ذکر کریں گے تو رات کے اندھیروں میں گورنر صاحب سے ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حیرت کاا ظہار بھی کریں گے کہ قسور گردیزی عوام میں جن طبقوں کی رہنمائی کرتے تھے ، رات کے اندھیروں میں حکمرانوں سے بھی رابطے میں رہتے تھے اور منافقت کی سیاست کرتے تھے ۔
اسی خدشہ میں وہ اکثر ایک انگریزی قول کا ذ کربھی کرتے تھے کہ
"A Man of truth must also be Man of Care.”
قسور گردیزی کا بنیادی طور پر شمار صاحب حیثیت اشرفیہ میں ہوتا تھا لیکن دلی طور پر وہ خود کو غریب پرست سمجھتے تھے۔ اور پسماندہ طبقات کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے۔ ایک بار میں نے ناسمجھی میں ان سے پوچھ لیا کہ مزدوروں، کسانوں اور متوسط طبقات کی حکمرانی میں آپ کی کیا حیثیت ہوگی تو ہنس کر کہنے لگے کے انقلابی سوچ اور شعور کے بعد کچھ سر پھرے ناواقف اور ناسمجھ مجھے سفید صاف کپڑوں میں بڑی کار میں جاتے ہوئے جاگیردار ٹولے کا فرد سمجھتے ھوئے حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ غریبوں کی پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد تمہیں (مجھے) وزیر زراعت بنا دیں۔۔ ایسا شخص جو اپنے طبقہ کی مخالفت میں صف آرا ہو اس کی حقیقی سوچ میں کوئی منفی یا مایوسی کا پہلو نہ تھا ۔
انہی دنوں نوابزادہ نصراللہ خان نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کسی پریس کانفرنس میں کیا تو ایک روز چند صحافی حضرات نے نوابزادہ صاحب کے حوالے سے قسور گردیزی سے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا پوچھا تو والد صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ریٹائرمنٹ تو ملازمتوں میں ہوتی ہیں۔ نظریات اور نظریاتی سیاستدان تو قبر میں اترنے تک جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ