قصور میں ایک اور سات سالہ ننھی کلی زینب کو ہوس کا شکار بنا کر قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کو کوڑا دان میں پھینک دیا گیا۔ حضور والا یاد رہے کہ زینب اس شہر کی پہلی بچی نہیں ہے جسے زیادتی کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلایا گیا بلکہ گزشتہ چھ ماہ کے اندر قصور شہر میں مختلف خاندانوں کے دس بچے اور بچیاں بھی اسی درندگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں آج سے ڈھائی سال پہلے 2015 میں 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اب بات کرتے ہیں اس احمقانہ سوال پر کہ کیا مجرموں کو سزا دی گئی؟ تو جناب اگر مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو کیا آج آدم و حوا کی اولاد اس طرح اپنے گھروں میں بھی غیر محفوظ ہوتی؟کیا اس طرح اپنے سگے رشتےدار بھی رشتوں کا احترام کھو کر ہوس کے پجاری بنے بیٹھے ہوتے؟کیا اس طرح ہمارے بچوں کو کئی کئی دن ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے غلاظت کے ڈھیروں پر پھینکا جاتا؟
اب بات آتی ہے کہ کیا زینب کو انصاف ملے گا؟
اس بات سے کوئی انکاری نہیں ہے کے اب میڈیا اور سوشل میڈیا بہت آزاد ہو چکے ہیں۔ اور ہر خاص و عام کو ان تک رسائی حاصل ہے۔ ہمارے ہاں ہر چھوٹے بڑے معاملے پر آواز ہمدردی کے تحت ہی سہی پر اٹھائی تو جاتی ہے لیکن ہم لوگ کسی معاملے پر بول کر چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم نے اس تکلیف کو محسوس نہیں کیا ہوتا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کے ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اس کے بعد ہماری چپ کی وجہ سے معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔
لیکن اب بات ہمدردی سے ہٹ کر ہے۔ سوچیں اگر اس بچی کے مجرموں کو سزا دے کر درندگی کی اس پھیلتی ہوئی آگ پر قابو نہ پایا گیا تو یہ آگ بہت جلد ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس سے پہلے کہ یہ آگ ہمارے گھروں کی طرف بڑھے اس سات سالہ معصوم بچی کے لئے آواز اٹھائیں۔ یہ نہ سوچیں کہ وہ کس شہر،کس علاقے،کس برادری یا مسلک کی بچی تھی بلکہ یہ سوچیں کہ وہ پاکستان کی بیٹی تھی وہ ہماری بچی تھی۔ خدارا اس بچی کے مجرموں کو عبرت کا نشان بنانے تک اپنی آواز کو مت روکیں کہ خدا نہ کرے کل کو ہمارے گھروں کی زینب بھی کسی ظالم کی درندگی کا شکار ہو کر کوڑا دانوں میں ملیں۔۔
فیس بک کمینٹ