ہمارے دوست شاہد اقبال نے پاکستانی معاشرے میں اٹھائے جانے والا سب سے آسان سوال پوچھا ہے کہ ایک عام پاکستانی گھرانہ جس کی آمدنی 18000 روپے ہے، اپنی روزمرہ گزر اوقات کس طرح کرتا ہے. انہوں نے کچھ حساب جوڑا ہے ۔ روزمرہ کا گھی، ایندھن، سبزی، گوشت کا خرچہ اور مجموعی آمد و خرچ کا فرق نکالا ہے اور آخر میں کہتے ہیں آمد خرچ سے بہت کم ہے. پھر عام آدمی کیسے جیتا ہے؟
لگتا ہے ہمارے دوست نے نویں درجے کے ملازم کی تنخواہ کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے.
ایم فِل پاس کرنے والا جوان جو حکومت کے سکولوں میں علم کی دولت بانٹنے چلا ہے ایک ریاستی ملازم یا نوکر نہیں بلکہ غلام ہے. چونکہ ٹیچر اور معلم کے ساتھ احترام عزت اور وقار جڑا ہوتا ہے جسے ایک میٹرک پاس ریٹائر فوجی کے سامنے جوابدہی کے لئے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے اسے غلام کہتے ہیں معلم نہیں. معلمی درجوں میں نہیں تولی جاتی.
سنتے، دیکھتے آئے ہیں میرے پاک وطن میں مارشل لاء نامی طرزِ حکمرانی آتا ہے جس کا اعلان رات کے اندھیروں میں ہوتا ہے.
حیرانی ہے پھانسی کی سزائیں رات کو مارشل لائیں بھی رات کے اندھیروں میں.
صبح تو نور ہے، صبح تو روشنی ہے، صبح تو اجالا ہے.
جرم پنپتا ہے اندھیاروں میں جلاد اترتے ہیں راتوں میں.
رات کو مارشل لاء کا اعلان ہوتا ہے اگلے دن بلڈی سویلین جب دفاتر میں آتے ہیں تو کرسی پر ایک عدد افسر کو چھڑی لہرائے پاؤں پھیلائے موجود پاتے ہیں.
یہ تو ہر پندرہ بیس سال کی مشق ہے جو میرے دیس میں دھرائی جاتی ہے مگر اب تعلیمی اداروں میں روزانہ مارشل لاء ہے.ریٹائرڈ اہلکار کیمرہ لئے ٹیب اٹھائے صبح سویرے موجود.
خود کو معلمی کی خوش فہمی میں لپٹائے جو بشر پہنچتا ہے تو کیمرہ لہراتے ٹیب گھماتے فوجی کو موجود پاتا ہے.
اوئے توں لیٹ کیوں.
تو ہانپ کیوں رہا ہے
تیرے جوتے صاف نہیں
کمرے خراب کیوں ہیں
لڑکوں نے منہ کیوں نہیں دھویا.
بچوں سمیت سب قطار میں کھڑے کر دئیے جاتے ہیں اور معلمی کے بخار میں مبتلا آدم جایا آدھ گھنٹے کی دیری کی وضاحت کرنے دفاتر کی پیشیاں بھگتا ہے.
آپ اسے ٹیچری کی سند دیں آپ اسے معلمی کے اعزاز بخشیں لیکن تہزیب یافتہ دنیا میں اسے غلام کہتے ہیں.
شاہد صاحب!
آپ نے اس کی آمدنی کا غلط حساب لگایا ہے اس کی آمدنی اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہے آپ کو غلط بتایا گیا ہے ۔ یہ پرلے درجے کا جھوٹا ہے.
میں آپ کو بتاتا ہوں اس کے ذرائع آمد اور کیسے یہ گزر بسر کرتا ہے. علم کے خزانے لٹانے والے اس ریاستی غلام نے اس سال ماں کا جو زیور بیچا ہے اس رقم کو اس کی آمد میں شامل کیوں نہیں کیا. شام کو اڈے پہ آئس کریم بیچنے سے جو کماتا ہے وہ بھی اس کی آمدنی ہے. ہر مہینے کے پہلے ہفتے یہ دو راتیں گھر سے غائب ہوتا ہے. معلوم ہے آپ کو یہ کہاں جاتا ہے ؟ یہ یاروں کے ساتھ جوا کھیلنے جاتا ہے اس کمائی کو آمدنی نہیں کہیں گے کیا ؟ آپ کو یاد تو ہو گا دو سال پہلے ماں کے گردوں کے علاج کے لئے جب ساری جمع پونجی ختم ہو گئی تو اس نے اپنا گردہ بیچ کر جو لاکھوں لئے وہ بھی کسی شمار قطار میں آئیں گے . اور ہاں پچھلے مہینے باپ کے دل کے دورے پر ڈاکٹروں نے کہا بائی پاس آپریشن کرانا ہو گا تو پتہ ہے آپ کو اس آپریشن کے لئے اس کی جیب کس نے بھاری کی تھی وہ اس کی جوان بیوہ بہن نے اپنی خون پسینے کی کمائی دی تھی اسے.
بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ راتوں کو تو بہت کمائی ہوتی ہے تھوڑا سا پسینہ ذرا سا خون بہہ جاتا ہے تو کیا ہوا.
یہ رقم اس نے دکھی انسانیت کے درد میں مبتلا مسیحاؤں کی نذر کی تھی.
شاہد صاحب آپ بہت سادہ ہیں
مکان کے رہن سے جو لاکھوں ملے اور اس رقم سے شادی رچائی تھی اس نے یہ آمدنی نہیں تھی کیا ؟ اگر اس کا چھوٹا بھائی ٹرک کلینری کرتے چھاپے میں پکڑا گیا ہے تو اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں اس کا نصیب ایسا تھا. اس کے ٹرک کا ڈرائیور سمگلروں کا سامان نہ اٹھاتا تو نہ پکڑا جاتا. مالک اسے چھڑا لیں گے. آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں
اس کے مقدر کا لکھا ہوا ہے رب کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے اس کی مرضی کے بغیر پتا تک نہیں ہلتا بندہ بشر کی کیا اوقات.
یہ کس نے کہا تیرے وطن میں بھوک ہے غربت ہے.
حضور کی حدیث ہے کہ غربت سے بچو یہ کفر کی طرف لے جاتی ہے.
ارے بھائی میرے!
پہلے اس ملک سے غریبوں اور بھوکوں کا خاتمہ کیا گیا پھر اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا. اب اس ملک میں غربت یعنی کفر کا نام و نشان نہیں اس لئے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے. یہ جو آپ کو سڑکوں پر کاغذ چنتے بچے نظر آتے ہیں یہ بھوکے بنگالیوں کے ہیں. گندگی کے ڈھیر پر جھونپڑیوں میں آباد یہ برما کے لوگ ہیں. یہ بھیک مانگنے والی افغان عورتیں ہیں.
پاکستان تو خوشحال اور سر سبز و شاداب ملک ہے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے لوگ آسمان سے اترے ہیں کیا
ارے بابا یہی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے