گزشتہ دنوں لائبریری گیا تو میرے ہاتھ میں ایک فوٹو سٹیٹ کتاب آ گئی۔ ورق گردانی کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ یہ کتاب تو پروین شاکر کی ترجمہ کردہ ہے جو بھارت کی ایک نوجوان شاعرہ گیتانجلی کی نظموں پر مشتمل تھی۔ گیتانجلی کینسر کی مریضہ تھی اور 1980ءکی دہائی میں کینسر کی وجہ سے اس کا انتقال ہوا۔ اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن لندن سے شائع ہو کر پروین شاکر تک پہنچا تو اس نے سوچا کہ وہ اس کتاب کا اُردو میں ترجمہ کریں گی۔ پروین شاکر نے اس کتاب سے کچھ نظموں کا انتخاب کیا جس کا انہوں نے اُردو میں ترجمہ کیا اور ترجمہ کرتے ہوئے اُن کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ یہ کتاب چونکہ کینسر میں مبتلا ایک شاعرہ کی ہے اس لیے احمد سلیم، پروین شاکر اور مظہرالاسلام نے یہ سوچا کہ کتاب کی تمام آمدنی عمران خان کے ہسپتال کو کس طرح دی جائے؟ یہ بات دسمبر 1994ءکی ہے۔ پروین شاکر خود بھی یہ چاہ رہی تھیں کہ وہ گیتانجلی کی کتاب کا تراجم مکمل کر کے جلد سے جلد شائع کروا لیں۔ ترجمہ مکمل ہو چکا تو احمد سلیم کمپوزنگ کے لیے مسودہ لے کر اسلام آباد سے لاہور چلے آئے۔ کتاب کا سرورق جمال شاہ نے تیار کیا۔ کتاب کی اشاعت کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور اس کے بعد پروین شاکر ایک ناگہانی حادثے کا شکار ہوئیں اور موت کی وادی میں چلی گئیں۔ اس کتاب کو بعد میں مراد پبلیکیشنز نے شائع کیا اور یہ کتاب موت کے خلاف زندگی کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
پروین شاکر اکثر اس کتاب کے بارے میں یہ کہا کرتی تھیں کہ گیتانجلی میں زندگی کی تڑپ اتنی زیادہ تھی جو اس عمر کی بچیوں میں مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ 14، 15 سال کی وہ بچی جو موت اور زندگی کی کشمکش کے دوران سکول جاتی تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ موت کے چنگل میں آ جاتی تھی۔ اس کی ایک ایک سانس زندگی اور موت کے احساسات سے جڑی ہوئی تھی۔ گیتانجلی نے اپنی اس کیفیت کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ مثال کے طور پر یہ نظم دیکھئے جس کا عنوان ہے ”چھوٹے چھوٹے محبت نامے“:
اکثر راتوں کو
جب ساری دنیا سو جاتی ہے
مَیں اندھیرے میں جاگتی رہتی ہوں
اور کوشش کرتی ہوں
کہ نہ رو¶ں!
رحم! مَیں چلاتی ہوں
رحم اے خدا!
مجھ پہ رحم!
میرے مجروح دل
اور زخموں کو اچھا ہونے دے!
کیا مَیں تجھ سے پوچھنے کی جرا¿ت کر سکتی ہوں
کہ آخر مَیں نے کیا کیا ہے
جس کی مجھے یہ سزا ملی ہے!
خوشیوں سے بھرے وہ دن کہاں چلے گئے
کہاں …….. اوہ کہاں؟
اور کیوں؟
کینڈی کی طرح میرے دوست بھی چلے گئے ہیں
”جلدی سے اچھی ہو جا¶!“
”حوصلہ کرو!“
ڈاکیہ بس یہی کچھ لاتا ہے!
عجیب…….. بہت عجیب
لیکن یہ انہی چھوٹے چھوٹے محبت ناموں کی گرمی ہے
جو میرے دل کو دھکڑکنے میں مدد دیتے ہیں!
اس طرح کی بے شمار نظمیں گیتانجلی نے تحریر کیں لیکن اس کے نصیب میں لمبی زندگی نہ ہو سکی۔ وہ اپنی بیماری کے بارے میں ہمیشہ سوچتی رہی لیکن موت کے بارے میں وہ کبھی بھی خوفزدہ نہ ہوئی کہ اسے معلوم تھا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور یہ آکر ہی رہے گے۔ اسی لیے گیتانجلی نے اپنی کتاب میں لکھا ”میرے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ممکن ہے ایسا نہ بھی ہو۔ پچھلی بار میرے بچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی اس لیے کون جانے اب بھی ایسا ہی ہو۔ یہ سچ ہے کہ مَیں خوفزدہ نہیں ہوں، مَیں موت سے نہیں ڈرتی، مَیں مرتے ہوئے ڈرتی ہوں۔ میرے خیال میں جس بات سے مجھے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے وہ قابلِ رحم حالت ہے جس کا وقتِ مرگ امکان ہو سکتا ہے۔“
گیتانجلی کے یہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کی سوچ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ شدید بیماری میں مبتلا ہوئی تو اس نے لکھا ”مَیں ابھی مرنا نہیں چاہتی، اگر خدا مجھے محض چند برس اور دے دے تو مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے…….. یہ کیک پر شکر کی تہہ جمانے جیسا ہو گا اور خدا سے یہ آرزو کرنا بہت زیادہ تو نہیں۔ مَیں خدا کی شکرگزار ہوں کہ مَیں اب اپنے جوتے خود پہن سکتی ہوں کیونکہ ایک وقت تھا جب مَیں اپنے پیروں کو چھو تک نہیں سکتی نہ چل سکتی تھی۔ میری تکلیف کا اندازہ کریں جب آپ ساری زندگی خود اپنے اوپر انحصار کرتے رہے ہوں (مَیں اس وقت پندرہ سال کی ہوں) اور اچانک آپ کو ضرورت محسوس ہو کوئی آپ کو جوتے پہنائے، کپڑے بدلے، نہانے دھونے اور کھانے پینے میں مدد کرے، یہ تذلیل سے بھی بڑھ کر ہے اور اسے قبول کرنے میں وقت لگتا ہے۔ بیشک مجھے حاصل ہونے والی توجہ اور قربانی میرے نزدیک بے حد قیمتی ہے لیکن اس صورت میں جب مَیں اپنے آپ کو بے وقعت اور ایک بوجھ سمجھے بغیر نہیں رہ سکتی۔“
پروین شاکر کی یہ کتاب ایک عرصے بعد میری لائبریری سے ہوتی ہوئی ایک مرتبہ پھر میرے مطالعے میں آئی ایسا لگا جیسے یہ کتاب ہم سب کو پڑھنی چاہیے۔ اور پھر جب یہ کتاب شائع ہوئی نہ گیتانجلی تھی، نہ پروین شاکر تھی لیکن پروین قادر آغا اور مظہرالاسلام نے اس کی اشاعت کو آسان بنایا۔ یہ کتاب یقینا ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی ہو گی لیکن 1995ءمیں شائع ہونے والی یہ کتاب اب بازار میں نہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب پروین شاکر ٹرسٹ دوبارہ شائع کرے تاکہ پڑھنے والوں کو ایک خوبصورت کتاب دوبارہ سے مل جائے۔ اس کتاب کا نام کیا ہے؟ اس کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ میری لائبریری میں جو فوٹو کاپی موجود ہے اس میں سے پہلے صفحات غائب ہیں جس وجہ سے کتاب کا نام نہیں مل سکا۔ کتاب کے نام کا کھوج لگانے کے لیے مَیں نے جناب مظہر الاسلام سے رابطہ کیا تو وہ بھی کہنے لگے کہ اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا۔ برادرم احمد سلیم سے کئی مرتبہ رابطہ کیا لیکن انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ محترمہ پروین قادر آغا کو یقینا اس کتاب کا نام معلوم ہو گا ابھی مَیں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کتاب کا نام کس طرح تلاش کیا جائے کہ برادرم مظہرالاسلام کا فون آ گیا اور انہوں نے کتاب کا نام ”گیتانجلی“ بتایا جو شاعرہ کا نام ہے۔اب اس کتاب کے متعلق اہم کام یہ ہے کہ اس کتاب کے اگلے ایڈیشن کی اشاعت کو جلد یقینی بنایا جائے تاکہ پڑھنے والوں کو یہ کتاب دستیاب ہو سکے۔ سرِ دست یہ کتاب بازار میں نہیں لیکن مظہر الاسلام اور بیگم پروین قادر آغا کی موجودگی سے ہم یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ کتاب جلد شائع ہو جائے تاکہ کتاب پڑھنے والے اچھی شاعری سے لطف اندوز ہو سکیں۔پروین شاکر کی ترجمہ کردہ ایک اور نظم ملاحظہ فرمائیں:
جمالِ آفتاب
ہر شام جب دونوں وقت ملتے ہیں
مَیں اپنی کھڑکی سے ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھتی ہوں
جب روشنی دھیرے دھیرے مدھم پڑ جاتی ہے
اور لمحے خاموش اور تنہا ہونے لگتے ہیں
میرا دل بھی میری روح کے اندر ڈوب جاتا ہے
کیونکہ مَیں نہیں جانتی کہ
سورج کی یہ سج دھج
دوبارہ دیکھ بھی سکوں گی کہ نہیں
فیس بک کمینٹ