ماماصدیق بلوچ کراچی کو خیر باد کہہ کر کوئٹہ جا بسے تھے۔ پہلے انگریزی کا اخبار نکالا اور پھر اُردو روزنامہ۔ دونوں اخبار چل پڑے تو کراچی آنے جانے لگے۔ جب بھی کراچی آتے، پریس کلب ضرور آتےاور نئی نسل کے صحافیوں کے ساتھ گپ شپ کے دوران اپنی زندگی کے تجربات اس انداز میں بیان کرتے کہ کراچی کا پورا صحافتی منظر نامہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا۔
ماماصدیق بلوچ 1940ء میں کراچی کے سب سے قدیم علاقے لیاری میں پیدا ہوئے تھے۔ کالج یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تو صحافت کو ذریعہ معاش بنالیا اور پھر ساری زندگی اسی مقدس پیشے سے وابستہ رہے۔ بلوچستان کے حوالے سے وہ انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی کے معاشرتی عروج وزوال اور سیاسی اتھل پتھل کے بارے میں بھی ان کی معلومات رات دن ٹیلی وژن اسکرینوں پر بیٹھے تجزیہ نگاروں سے کہیں زیادہ تھیں۔ چونکہ وہ بلوچستان میں رہتے تھے اس لیے ٹی وی اسکرین پر کم کم ہی دکھائی دیتے تھے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ماما کو 1973ء میں بھٹو حکومت نے گرفتار کر لیا تھا اور پھروہ بھٹو کی حکومت جانے تک یعنی1977ء تک جیل میں بند رہے۔ اگرچہ سیاست سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن غوث بخش بزنجو کا پریس سیکریٹری بننا انہیں مہنگا پڑا۔ کوئی پوچھتا کہ صحافت چھوڑ کر گورنر کے پریس سیکریٹری کیوں بن گئے تھے۔ اس کے جواب میں ماماصدیق بلوچ دلچسپ قصہ سنایا کرتے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اس وقت کے گورنربلوچستان غوث بخش بزنجو کو مکران جاناتھا۔ ماماصدیق بلوچ اپنے اخبار کےکسی خصوصی اسائنمنٹ پر کوئٹہ میں موجود تھے۔ وزیراعلیٰ سردار عطاءاللہ مینگل نے انہیں بھی سرکاری وفد کے ساتھ مکران بھیجا۔ ماما اپنے ایک دوست کی گاڑی میں گوادر پہنچے۔ گورنر نے گوادر میں ایک سیاسی تقریب سے خطاب کرنا تھا لیکن ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزعلالت کے باعث وہاں نہ پہنچ سکے۔ گورنر بزنجو فکرمند تھے، ماما نے انہیں تسلی دی کہ ان کے جلسے کی خبر وہ بنا دیں گے۔ ماما نے جو خبر بنا کر بھیجی اگلے دن وہ خبر ساڑھے چار سو سے زائد اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔
ماماگوادر سے واپس کراچی آنا چاہتے تھے لیکن گورنر بزنجو انہیں اپنے ساتھ کوئٹہ لے گئے اور اپنے ہاتھ سے ماما کا استعفیٰ لکھ کر ان کے اخبار کو بھجوا دیا اور انہیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کر دیا۔ ماما نے بزنجو کے ساتھ چار ماہ کام کیا اور پھر1973ء میں انہیں نیشنل عوامی پارٹی کے بہت سے دیگر رہنماؤ ں کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت حیدرآباد سازش کیس میں ماما کو نیپ کی حکومت کے خلاف گواہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی لیکن ماما نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اس وقت تک قید رہے جب تک جنرل ضیاءالحق نے حیدرآباد ٹربیونل تحلیل نہیں کر دیا۔
ماماصدیق بلوچ جس دن جیل سے باہر آئے، اسی دن اخبار نے انہیں واپس اپنے کام پر مامور کر دیا۔ ماما 1966ء میں جس اخبار سے وابستہ ہوئے تھے۔ چار سال جیل کے نکال کر لگ بھگ 28 سال تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔ وہ دو مرتبہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور کراچی پریس کلب کے نائب صدر بھی رہے۔ دو بار بلوچستان نیوز پیپر ایڈیٹر کونسل کے صدر رہے۔ وہ انتہائی نڈر اور بے باک صحافی تھے۔ مشرف دور حکومت میں جب اکبر بگٹی کا قتل ہوا تو ماما واحد صحافی تھے جنہوں نے اپنے اخبارات میں بگٹی کو شہید لکھا۔
ماماصدیق بلوچ جب کراچی میں انگریزی اخبار سے وابستہ تھے تو بلوچستان کے حوالے سے شائع ہونے والے خصوصی ضمیمے وہی تیار کرتے تھے۔ وہ ایک ہی موضوع پر سو صفحات کا ضمیمہ لکھنے والے واحد صحافی تھے۔ انہوں نے بلوچستان کے بارے میں دوکتابیں لکھیں۔ تیسری کتاب مکمل کرنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن انگریزی اور اُردو اخبارات کی شکل میں انہوں نے جو پودے لگائے تھے۔ وہ اب گھنے درخت بن چکے ہیں اور آنے والی نسلیں ان کی ٹھنڈی میٹھی چھا ؤ ں سے فیض یاب ہوتی رہیں گی۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ