اگر میں یہ کہوں کہ ہم سب ادھوری زندگی جی رہے ہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ امر واقع تو یہی ہے کہ ہم تو اپنی زندگی جی ہی نہیں رہے۔ نہ ہی اپنی زندگی پر انحصار کر رہے ہیں نہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم پیدا ہوتے ہیں تو والدین کی قید میں چلے جاتے ہیں ، پھر اپنی خوشی انہی کیلئے نچھاور کرتے ہیں ۔ پھر بچوں کیلئے جیتے ہیں ، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کر سکتے ۔ہم تو پیروں فقیروں کی خواہشات پر جیتے ہیں ، دنیاوی رسم و رواجوں کی پابندی کرتے کرتے مر جاتے ہیں۔ جو کچھ ہم سوچتے ہیں اس پر پہرے لگا دیئے جاتے ہیں ۔ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ، وہ کہنے نہیں دیا جاتا ۔ جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں جانے کی حدود و قیود کے پہرے ہیں ۔ پھر بتایئے کہ ہم کہاں اپنی زندگی جی رہے ہیں ۔ ہم اپنی مرضی سے رو سکتے ہیں اور نہ ہنس سکتے ہیں ، نہ ہی مر سکتے ہیں پھر آخر ہم کیوں جی رہے ہیں ؟ کس لئے جی رہے ہیں ؟پیدا ہوئے ، بڑے ہوئے ، جوان ہوئے ، یہی سلسلہ ہے جو چل رہا ہے ۔ یہ کیا سلسلہ ہے یہ سلسلہ جہاں سے شروع ہوتا ہے ، ہم سب کو معلوم ہے لیکن کہاں جا کر اس کی انت ہوتی ہے ، یعنی وہیں جا کر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے جہاں اساطیری قصے کہانیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کے کہے کو غلط کہنے والا در اصل اپنی توہین کا خود مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ میں دانستہ طور پر اپنی توہین خود کرنے کا مرتکب ہونے کی اجازت چاہتا ہوں ۔
بزرگوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ زندگی بسر کرنے کیلئے عقل استعمال کی جائے تو کامیابیوں سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیسے کیسے دانشمند تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے ۔ پھر عقل کس کام کی؟ سچی بات یہی ہے کہ ہم کٹھ پتلی ہیں اور ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ حساب کتاب میں دو جمع دو چار بنتے ہیں ۔ لیکن اس کی ہیتِ مجموعی کو خاطرمیں نہیں لایا جاتا۔ اسی تناظر میں مجھے کہنے دیجئے میں اور آپ سب ہیتِ مجموعی ہیں ۔ جب ہم ہیتِ مجموعی کو کسی شمار قطار میں نہیں لاتے تو ہم بھی کسی شمار قطار میں نہیں آتے تو ادھورے رہ جاتے ہیں ۔ ہاں ہم ادھورے ہیں ۔ ہماری زندگیاں بھی ادھوری ہیں ۔ ہم سب یہاں کیوں جمع ہیں ؟ ہم ادھورے ہیں تو جمع ہیں ، ادھورے نہ ہوتے تو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے ، ہم یہاں اس تقریب میں جمع ہیں تو یہ بھی ایک کام ہے نا، تو یہ بھی ایک کام ہے اگر یہاں نہ ہوتے تو دوسرے کاموں میں مصروف ہوتے ۔ در اصل ہماری مصروفیت ہی ادھورے پن کی کھلی دلیل ہے تو یہاں سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے مکمل ہو سکتے ہیں اور ہماری زندگی کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کے جواب کیلئے ہم بت تراشتے ہیں ، عقیدے وضع کرتے ہیں ، اپنی اپنی منزلیں خود نشان زد کرتے ہیں ۔ اپنے فلسفے خود تیار کر لیتے ہیں ۔ درست بات یہ ہے کہ سوال کی کوکھ سے سوال ہی جنم لیتے ہیں اور جواب کی کوکھ سے بھی سوال جنم لیتے ہیں ۔ نہ جواب مکمل ہوتا ہے اور نہ سوال مکمل ہوتا ہے۔ اگر ہم نے عقیدے تراش لئے ہیں ، مکمل ہونے کے لئے بت بنا لئے ہیں تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر انسان اپنے ادھورے پن کو کس طرح تکمیل کی طرف لے جا سکتا ہے ۔
انسان کی پوری زندگی ادھورے پن کی علامت ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مکمل اور کامل کرنے میں ساری زندگی صرف کر دیتا ہے۔ جب وہ مکمل ہونے کے قریب آتا ہے تو منزل اس سے دور کر دی جاتی ہے یا منزل خود دور ہو جاتی ہے اور پھر وہ دوسرے سفر میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ وہ سفر اندھیرے کا سفر ہے ، وہ سفر نور کا سفر ہے ۔ اندھیرے اور نور کے راستے انسان کی تکمیل تک پہنچنے کی منزل سے نکلتے ہیں ۔ اپنی ادھوری زندگیوں کو ضرور مکمل کیجئے ، کسی کو اندھیرے میں ڈال کر نہیں ، کسی کو اندھیرے کے حوالے کر کے نہیں ، پھر آپ کے لئے نور کے راستے کھلتے جائیں گے۔ اگر زندگی مکمل ہوتی تو ہم زندگی میں جو کچھ کر رہے ہیں ، نہ کر رہے ہوتے ۔ مکمل تو بس ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے ربِ کائنات ، جو حاضر بھی ہے ، غائب بھی ، جو سجن کی بھی ہے ، دشمنوں کی بھی ، جو آپ کی بھی ہے ، میری بھی، جس کا آپ کو بھی علم ہے، مجھے بھی ۔ جب قطرہ دریا میں جا ملتا ہے تو وہ دریا بن جاتا ہے، جب ہم منزل پر پہنچیں گے تو ہم دریا بن جائیں گے، مکمل ہو جائیں گے ، ادھورے پن میں تو انسان مایوسی اور امید کے درمیان ٹنگا ہوتا ہے ۔ دعا ہے اے ربِ کامل ! ہر انسان کو اور اس کی زندگی کو کامل زندگی عطا فرما ۔ انسان کیا ہر جاندار چیز اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہی ایک مکمل نظام بنا لیتی ہے لیکن انسان کا مختلف معاملہ ہے۔ وہ اپنی گردشوں میں خود گرفتار رہتا ہے ۔ غیر مرئی خواہشات کی تکمیل کیلئے وہ خیرات کرتا ہے ، گو کہ خیرات ایک خوبصورت اور قیمتی عمل ہے جو آپ کے جسم و جان کی آلودگی کو صاف کرتا ہے ، اپنی کمائی سے جسم و جان کی آلودگی کو صاف کرتے رہنا چاہئے ، جو روشن راستے پر چلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ ہم مزاروں پر حاضری دیتے ہیں ، اس طرح وہ قلبی اطمینان تو حاصل کر سکتا ہے لیکن روح کو خوش رکھنے کیلئے کچھ نہیں کر پاتے کیونکہ اسے علم ہی نہیں ہے ۔ روح ، قلب اور ذہن اس وقت کامل اطمینان میں رہتا ہے اور اس کی روح نہال ہو جاتی ہے جب سلسلے جڑ جاتے ہیں ۔ اس خوشی لا مثال کے حصول کے راستے تلاشنے میں اگر کامیابی ملتی ہے تو ادھوری زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے ۔ میری اس ساری گفتگو میں بے شمار سوالات پوشیدہ ہیں لیکن آپ کے قلتِ وقت کے پیش نظر یہی اظہاریہ ہی کافی ہے ۔ حرفِ آخر یہی ہے کہ لڑائی جھگڑے ، کھینچا تانی ، اختلاف ،محبت اور نفرت ادھورے پن کی کھلی علامتیں ہیں ، اللہ پاک ہم سب کو ان علامتوں سے محفوظ فرمائے ، کامل اور مکمل زندگی عطا فرمائے ۔
فیس بک کمینٹ