میں جونہی وہاں پہنچا ، کیسے پہنچا؟ یہ ایک طویل کہانی ہے۔ مجھے خلا میں بھیجنے کے لئے 9 مہینے کی ایک طویل تربیت دی گئی۔ دورانِ تربیت ایسا ماحول میسںرر کھا گیا جہاں نہ دن کا تصور تھا اور نہ رات کی کالی تنہائی کا احساس۔ مدت سے سفر کرنے کیلئے تیارکئے جانیوالے خلائی جہاز جسے کیپسول کہا جاتا تھا ، اس میں مجھے دیگر ساتھیوں کے ساتھ سوار کرا دیا گیا ۔ زادِ راہ کےلئے چھوٹے سے بیگ میں ٹیبلٹس وغیرہ دے دی گئیں جو خلائی لباس کا حصہ تھا ۔ نہیں معلوم کتنا عرصہ میں خلائی جہاز میں محوِ سفر رہا ۔ دن رات کا تصور مفقود ہو چکا تھا ۔ پھر اچانک اعلان ہوا کہ تیار ہو جایئے ہم لینڈ کرنے والے ہیں ۔ ہم نے کیا تیار ہونا تھا ۔ زمین سے روانہ ہونے سے پہلے تربیت کے دوران جو ہدایا ت دی گئی تھیں ‘ اس کے مطابق ہم نے اپنی نشستوں پر بیلٹس کس لیں ۔ پھر احساس ہوا کہ ہم نیچے نیچے جا رہے ہیں ۔ پھر اعلان ہوا کہ ہم لینڈ کر چکے ہیں ۔
کیپسول کا دروازہ کھول دیا گیا ۔ جونہی کیپسول کا دروازہ کھلا ہوا کا تیز جھونکا ہمارے لباس سے ٹکرایا اور ایک چیز جسے نہ کاغذ کہہ سکتے ہیں نہ کپڑا اور نہ ہی شاپر اڑتے ہوئے میری ناک سے ٹکرائی ۔ میں خلائی لباس میں تھا ‘ کوٹ پہنا ہوا تھا ‘ میں نے اس ٹکڑے کی طرف دیکھا جسے ہوا آگے دھکیلے جا رہی تھی ۔ میں تیزی سے آگے بڑھا کہ دیکھوں اس خلائی سیارہ پر یہ ٹکڑا کہاں سے آیا اور کیا ہے ۔ میں بے وزنی کی کیفیت میں اس کے پیچھے ہو لیا اور ٹکڑے کو ہاتھ سے اٹھا لیا اور اسی کیفیت میں اپنی ٹیم سے آ ملا ۔ گو کہ یہ میرے مینڈیٹ میں شامل نہیں تھا۔ خلائی مسافروں کے ٹیم منیجر نے مجھے لعن طعن کی کہ خلائے بسیط میں اگر لا پتہ ہو جاتے تو ملنا مشکل تھا۔
سارے میرے ساتھی ایک جگہ جمع تھے ۔ ٹیم منیجر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پہنچنے سے پہلے تمہاری نانی اماں کی چٹھی آئی ہے ۔ میں خاموش رہا اور ہم اس مقام کی طرف چل پڑے جہاں ہماری رہائش کا بندوبست تھا ۔ ہر ایک نے اپنی جیب سے ٹیبلٹ نکالی ۔ ایک ٹیبلٹ میں نے بھی نکال لی۔ اسے اپنی زبان کے نیچے رکھ دیا ۔ یہ گولی کیا تھی وٹامنز کا ایک خزانہ تھا ۔ انسانی جسم میں وٹامن کی جتنی بھی کمی تھی ‘ یہ گولی اسے پورا کر دیتی تھی ۔ میں اس مقام کے اندر چہل قدمی کرنے لگا ۔ میرے پاس پاکٹ کمپیوٹر تھا جو ہمیں روانگی کے وقت دیا گیا تھا ، جو کوئی سات ارب مختلف آڑی ترچھی لکیروں کو ڈی کوڈ کرتاتھا ۔ جو کاغذ مجھے ملا تھا ، وہ میں نے جیب سے نکالا اور کمپیوٹر کے متعلقہ خانے میں اسے فیڈ کر دیا ۔ اف ! اللہ کی پناہ! کمپیوٹر کی آواز سن کے میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ یہ صورتحال زمین پر تربیت کے دوران مجھے سینئر سائنسدانوں نے بتائی تھی اور نہ ہی اس طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔ گو کہ ہمیں مریخ جیسے ماحول میں رکھا گیا تھا ۔ یہاں بے وزنی کی کیفیت تھی ۔ عالم یہ تھا کہ آواز کی کیفیت کو ڈی کوڈ کر کے سنا جا سکتا تھا ۔ میں پہلے بھی اپنے طور پر سائنس فکشن پڑھتا رہتا تھا ‘ لیکن ایسی صورتحال کا مجھے کبھی بھی سامنا نہیں رہا‘ میں مخمصے میں پھنس گیا ۔
کمپیوٹر بول رہا تھا کہ کوئی تین ارب سال پہلے ہم اس سیارے پر رہتے تھے ۔ زندگی کو آسودہ بنانے کے لئے تمام لوازمات میسر تھے ۔ الہامی کتابیں بھی جو انبیاءکرام پر اتار گئی تھیں ، وہ رہنمائی کےلئے موجود تھیں اور اس پر سخن فہم اور نکتہ آفرین صاحبانِ فکر و نظر اپنی اپنی خیال آرائیاں کرتے تھے ۔ خوبصورت کلام ہوتے تھے ۔ کائنات کے بارے میں مختلف نظریات لائے جاتے تھے ۔انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچا تھا کہ دوسرے سیاروں میں زندگی تلاش کرے ۔ سینکڑوں ، لاکھوں کتابیں میسر تھیں ۔ پیش گوئیاں کرنے والے کمپیوٹر بھی میسر تھے ۔ جدید ترین کمپیوٹروں کی مدد سے پتہ چلا لیا گیا تھا کہ یہ کرہ دو ارب نو کروڑ سات لاکھ ، پچاس ہزار ،پانچ سو سال چھ مہینے چوتھے دن سورج غروب ہوتے ہی غروب ہو جائے گی ۔
لوگ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے انہی کمپیوٹروں سے مدد لیتے تھے اور کمپیوٹر بے پناہ قوت رکھتے تھے کہ وہ سوال پوچھنے والے کے مزاج کے بارے میں بھی حاشیہ لکھ دیتے تھے اور خون کا تجزیہ کر کے عین وقت کے بارے میں بتاتے تھے کہ اسے یہ بیماری نمودار ہوگی اور یہ اتنا عرصہ جی سکے گا۔ موت کے متعین وقت کے بارے میں البتہ یہ خاموش ہوتے تھے ۔ اسی کمپیوٹر نے بتایا تھا کہ جس جگہ ہم رہتے ہیں یہ جگہ ستاروں اور سیاروں کی آمیزش اور آویزش میں اپنے کرہ سے نکل کر تباہ ہو جائے گا ۔ اس لیے سائنسدانوں نے کائنات میں دوسرے کرہ کی تلاش شروع کر دی تھی جہاں زندگی کی علامات موجود ہیں ۔ اس کرہ میں جہاں ہم رہتے تھے وہاں اتنی ترقی ہو گئی تھی کہ سلامتی کو قید کر لیا جاتا تھا ۔ امر وقت کی لگامیں کھینچ لی جاتی تھیں لیکن یہ نظریہ اپنی جگہ موجود رہا کہ یہ کرہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ ہم اس وقت سوچتے تھے کہ محض درد بھری زندگی رہ جائے گی تو یکدم ایک خیال میرے دامن گیر ہوا کہ جب زندگی ہی نہیں رہے گی تو درد کہاں سے رہے گا۔
پھر میں دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ بول رہا تھا کہ میں شیکالی ہوں ، میری عمر 320 سال ہے اور اگلے سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ کمپیوٹر نے مجھے بتایا ہے جبکہ اس کرہ کے تمام مکینوں کے علم میں ہے کہ کرہ اپنی زندگی پوری کر رہا ہے تو مجھے خیال آیا کہ ناسا نے تو اتنی ترقی کر لی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ خلا سے اگر کوئی کوہ گراں زمین کی طرف بھٹکتا ہوا آیا تو اسے خلا میں تباہ کر دیا جائے گالیکن اس وقت کے کمپیوٹر نے اس جیسی کوئی پیش گوئی نہیں کی تھی ۔ میں شیکالی اس وسواس میں مبتلا ہوں کہ جب سب دنیا تباہ ہو جائے گی اور لوگوں نے تجربات پر مبنی کتابیں غارت ہو جائیں گی۔ جدید ٹیکنالوجی ریزہ ریزہ ہو جائے گی ۔ پھر ایسے ہوگا جیسے کچھ تھا ہی نہیں تو میں شیکالی لکھ رہا ہوں کہ اگر زندگی کہیں محفوظ ہوئی تو اسے اس تباہی کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ جب کچھ رہے گا نہیں تو اتنی آویزیشیں ، کھینچا تانی ، ذہنی اور قلبی کشمکش کے زخم اور انسانی جبلتیں کس کام کی ۔ کمپیوٹر بول رہا تھا کہ ارب ہا سال کی ترقی کے بعد ہم نہیں رہے تو کوئی کیسے رہے گا ۔ ہماری کتابیں ، جس پر لوگ واہ واہ کرتے تھے ، ہماری شاعری جس پر لوگ سر دھنتے تھے ، ہماری گائیکی جس پر پودے بھی جھومتے تھے ۔ ہماری موسیقی جو چلتی ہوا کو روک لیتی تھی ، وہ سب کیا ہے۔
کمپیوٹر نے ایک سیٹی بجائے اور خاموش ہو گیا ۔ وہاں میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں جس کرہ سے آیا ہوں وہاں اجالے چہرے تھے اور اندھیرے لوگ تھے ۔ آخر اس کا کیا انت ہوگا۔ شیکالی نے ٹھیک ہی تو کہا کہ ہم سب کی منزل فنا ہے۔
کمپیوٹر بولا میں یہ سمجھتا ہوں کہ کائناتوں میں تمام کروں کو فنا ہونا ہی ہے ۔صرف پانی ‘ ہوا اور مٹی کو بقا حاصل ہے یہ کمپیوٹر اپنی طرف سے نہیں بول رہا تھا ‘ شیکالی کی لکھی تحریر کو ڈی کوڈ کر رہا تھا ‘ یعنی پڑھ رہا تھا۔ شیکالی نے لکھا ‘ میں جس صفحے پر یہ تحریر لکھ رہا ہوں ‘ میرے کمپیوٹر کے مطابق اس کی عمر ساڑھے چار ارب برس ہے ۔جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں گے ‘ اس وقت میرے کُرہ کو تباہ ہوئے تین ارب برس کے زمانے گزر چکے ہونگے کیونکہ میری تحریر کے مکمل کرنے سے پہلے یہ کرہ ریزہ ریزہ ہو کر کائناتوں کی وسعتوں میں اپنی اپنی جگہیں اور مقامات پر پہنچ چکے ہونگے۔ یہ معلومات بھی میرے کمپیوٹر نے جاری کی ہے ( البتہ شیکالی نے یہ نہیں لکھا کہ اس کا کرہ کائنات کے کس حصے میں اور کس نام سے مشہور تھا )۔ کمپیوٹر نے پھر سیٹی بجائی ‘ شیکالی نے لکھا حرف آخر یہی ہے جب ارب ہا انسانوں کی منزل ایک ہی ہے یعنی سب کو فنا ہو جانا ہی ہے تو پھر ہمارے کرہ پر جنگ و جدل ‘ کھینچا تانی‘ لڑائی جھگڑے ‘ قتل و غارت ‘ بھوک ننگ کس لئے؟ شیکالی نے آخر میں جو لکھا یہی میرا سوال ہے ‘ آنے والے زمانوں سے پوچھ لینا۔
فیس بک کمینٹ