پاکستان کی سیاسی قیادت جہاں اپنی مبینہ غلط کاریوں اور بداعمالیوں پربے وقار اور لا اعتبار ہوسکتی ہے جبکہ دوسرے بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں۔ سیاسی قیادت کے نام پر ایک کریڈٹ ایسا ہے جو جو کوئی ان سے چھین نہیں سکتا، وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ہے۔ کہانی ایٹمی پروگرام کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے شروع ہوتی ہے۔ جس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ 28 مئی 1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے امریکی اقتصادی معاونت کی پیشکش کو ٹھکرا کر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کی فوجی قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے کی اجازت دی۔ آج اسی دن کی یاد میں ’’یوم تکبیر‘‘ منایا جاتا ہے۔ اب وقت ہے اس سفر کی یاد تازہ کر نے کا ، ہوسکتا ہے آج پاکستان کادفاع مضبوط ہو۔ آج اقتصادی قوت بننے کےمعاملے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ اس کے لئے سیاسی و اقتصادی استحکام درکار اور مہم جوئی سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران پاکستان کو سیاسی بحرانوں اور مارشل لائوں سے گزرنا پڑا۔ دو افغان جنگوںمیں اگلا محاذ بننا پڑا۔ لیکن
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ملک کے ایٹمی پروگرام کے معاملے میں ایک صفحہ پر رہی۔ ایٹمی بم سازی کا سفر ذوالفقار
علی بھٹو کے ساتھ شروع ہوا جب انہیں 1958ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ انہوں نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کااحیاء شروع کیا اور 1956 ء کے پاک امریکا سول نیوکلیئر پروگرام کے تحت سیکڑوں نوجوان سائنس دانوں کو تربیت کیلئے بھیجا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھٹو مرحوم نے کہا تھا اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو بھوکے رہ لیں گے، گھاس کھالیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھی خبردار کیاتھا کہ بھارت ایٹم بم بنانے کی تیاریوں میں ہے پاکستان کو جواب میں اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنا چاہئے۔ انہوں نے چینی رہنما ماؤزے تنگ کو بھی اس بات سے آگاہ کر دیا تھا۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اکثر کے خواب چکنا چور ہوئے۔ پوری قوم دل شکستہ ہوئی۔ سیاسی و فوجی دونوں ہی قیادت مورد الزام ٹھہریں۔ بھٹو کو بھی اپنے سیاسی کردار پر ہدف تنقید بننا پڑا۔ نئے پاکستان کی اب تمام ذمہ داری بھٹو کے کندھوں پر تھی۔ قوم کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے انہوں نے ملتان میں نواب صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ پر ملک کے معروف سائنسدانوں کا اجلاس بلایا اور سادہ الفاظ میں مدعا بیان کرتے ہوئے کہا ’’کیا آپ مجھے ایک ایٹم بم دے سکتے ہیں؟‘‘ اجلاس میں موجود اکثر شرکاء اس بات پر حیران بھی ہوئے، کچھ سینئر سائنس دانوں نے انہیں بتایا کہ پاکستان کے پاس اس کام کے لئے انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے لیکن بھٹو سوال کی شکل میں اپنی خواہش دہراتے رہے۔ اس وقت اجلاس میں شریک ڈاکٹر عشرت عثمانی اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بھٹو کی خواہش پر تجسس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ممکن قراردیا۔ جس پر بھٹو نے اپنا اگلا سوال کیا، کتنے عرصہ میں ایٹم بم بنانا ممکن ہوگا؟ پھر پاکستان نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس مقصد کے حصول میں حمایت کے لئے بھٹو نے اسلامی ممالک کے طوفانی دورے کئے۔ انہوں نے کہا تھا یہ بڑا سنجیدہ سیاسی فیصلہ ہے اور تیسری دنیا کے تمام ممالک کوایک نہ ایک دن ایسا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی مرحوم پہلے رہنما تھے جنہوں نے بھٹو کا خیرمقدم کیا۔ دیگر میں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات مرحوم شامل تھے۔ پاکستانی ایٹم بم کے تخلیق کار ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود ذوالفقار علی بھٹو کی دریافت تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خود ایک ملاقات میں بھٹو کو سب سے بڑا قوم پرست قرار دیا تھا۔ جنہیں سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے بے توقیر کیا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)