اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ہائی کورٹس کے دو اور سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کردیے۔ حکومت کی جانب سے ریفرنسز میں ججوں پر بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے الزام لگایا گیا ہے۔یاد رہے کہ ججز کی بے ضابطگیوں اور دیگر شکایات درج کرانے کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کی روشنی میں اب تک 2 ججز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے گزشتہ سال اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی جس کے بعد صدر مملکت نے اس کی منظوری دی۔ اس سے قبل 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر انھیں عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو گئے۔حکومت کی جانب سے ریفرنسز میں ججوں پر بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے الزام لگایا گیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان زاہد فخر الدین جی ابراہیم نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے جس میں انہوں نے کام کرنے سے معذرت کی ہے۔زاہد فخر الدین نے ججز کے خلاف ریفرنس کو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنے استعفے میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی ساکھ ناقابل مواخذہ ہے۔
( بشکریہ : جیو نیوز )