12فروری کو ہونیوالے ضمنی الیکشن کے غیر متوقع نتائج سے قطع نظر اہلیان لودہراں کو جہانگیر خان ترین کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے نہ صرف تبدیلی کا نعرہ لگایا بلکہ تبدیلی لا کر بھی دکھادی تحریک انصاف کا یہی
نعرہ اور یہی تبدیلی تھی کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے، بادشاہ اور رعایا کے درمیان فرق ختم کیا جائے اور یہ جہانگیر خان نے کرکے
دکھا بھی دیا حکومت ہی نہیں بلکہ پورا حکمران خاندان کو لودہراں آکر عام
انسانوں کیساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوگیا 1992ء سے قبل لودہراں صرف ایک ریلوے جنکشن یا سائیکل رکشوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا گوکہ بانی ضلع لودہراں صدیق خاں کانجو شہید دو مرتبہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور رہے مگر لودہراں وہ نام اور مقام نہ حاصل کرسکا جو آج اسے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی حاصل ہے ۔ ملک کے بچہ بچہ کی زبان پر آج لودہراں کانام ہے ۔ یہ سہرا تحریک انصاف کےسینئر رہنما جہانگیر خان ترین کے سر ہے جو 2013 ء کے الیکشن میں اسی حلقہ سے وارد ہوئے تب سے اب تک لودہراں نے جتنی شہرت حاصل کی شاید کسی اور شہر کے حصے میں آئی ہو لودہراں کے عوام یوں تو برسوں سے اپنا حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں مگر ووٹ کی اہمیت اور افادیت کیا ہوتی ہے اس کا احساس شاید انہیں پہلی بار 2013کے الیکشن میں یا اس کے بعد ہونیوالے دو ضمنی انتخابات میں ہوا اس سے قبل یہاں کے مکینوں کی حیثیت غلاموں اور کمیوں سے کم نہ تھی میرے ایک صحافی دوست بتا رہے تھے کہ لودہراں کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے ڈیروں پر اب تک کئی ایسے ہیں جہاں دوسری کرسی نہیں رکھی جاتی تاکہ کوئی ان کے مد مقابل نہ بیٹھ جائے یہ تو بھلا ہو تحریک انصاف اور جہانگیر خان ترین کا جن کی جدوجہد سے شعور آیا عوام کو پے در پے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملا نتائج جو بھی آئے اس کے برعکس شاہی خاندان سابق وزیراعظم نواز شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، شہزادی مریم نواز اور حمزہ شہباز پورے لاؤ لشکر کیساتھ لودہرا ں پہنچے پنڈال سجایا خوب اہلیان لودہراں سے محبت، پیار اور وفا کا اظہار کیا سابق وزیراعظم نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ کن الفاظ سے اہلیان لودہراں کا شکریہ ادا کریں دل چاہتا ہے کہ وہ اہلیان لودہراں کا منہ چوم لیں اس سے پہلے شاید وہ لودہراں کا نام تک لینا گوارا نہ کرتے تھے اور وزیراعلیٰ کو شاید پانچ سال بعد بھی اپنے بلکہ ارکان صوبائی اسمبلی کے درست اور پورے نام نہ آتے ہوں جس کا اظہار ان کے خطاب کے دوران ہو بھی رہا تھا ۔ ضمنی الیکشن کے نتائج جو بھی آئے اس کا فائدہ ولدہراں شہر اور عوام کو ہوا ہے اور اگر آج حکمران لودہراں پر مہربان ہیں اور صدقے واری جا رہے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی جہانگیر ترین کو ہی جاتا ہے وہ جیت کر ہو یا ہار کر ۔ شکریہ جہانگیر ترین جن کی وجہ سے اہل اقتدار کی نظر لودہراں پر پڑی ۔یہ جیت مسلم لیگ(ن) اور عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کیلئے سابق وزیراعظم نواز شریف خوب کیش کرارہے ہیں اور یہ جیت دم توڑتی مسلم لیگ (ن)
کیلئے ایک آکسیجن کا کام کررہی ہے بعض ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر مملکت عبدالرحمن کانجو فوری طور پر لودہراں میں جلسہ نہیں کرنا چاہتے تھے مگر میاں نواز شریف نے از خود شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو لودہراں آنے پر مجبور کیا شہباز شریف کو خدشہ تھا کہ کہیں بڑے بھائی جان جلسہ میں ان کا ہاتھ بلند کرکے یہ نہ کہہ دیں کہ دیکھو یہ بھی عدالتی فیصلہ نہیں مانتے اور یہ تحفظات حمزہ شہباز کے بھی تھے تاہم بڑے بھائی کے مجبور کرنے پر چھوٹے بھائی اور برخوردار حمزہ شہباز کو لودہراں آنا پڑا یہ شہباز شریف کے تحفظات کاہی نتیجہ تھا کہ جلسہ سے کارکنوں کی شدید خواہش کے باوجود نہ تو مریم نواز نے خطاب کیا اور نہ ہی حمزہ شہباز نے۔عدلیہ کے بارے کوئی بیان بازی نہ کی سارے خاندان نے ایک جہاز میں سوار ہو کر لودہراں آکر یہ تاثر زائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ ان کے خاندان میں کوئی اختلاف نہیں ۔ جلسہ میں حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی جتنی ہونی چاہئے دو تین روز قبل ایک لاکھ سے زائد ووٹ لینے والے مسلم لیگ (ن) کے جلسہ میں شرکا کی تعداد چھ سات ہزار سے زائد نہ تھی لودہراں کے ارکان اسمبلی اور اہلیان کا خیال تھا کہ حکمران لودہراں کیلئے ملکی خزانوں کا منہ کھول دیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا وزیراعلیٰ نے صرف دو منصوبوں کا اعلان کیا وہ بھی دو بارہ اقتدار میں آنے کے بعد اور اس سلسلے میں ارکان اسمبلی کو مشاورت کیلئے 21فروری کو لاہور طلب کیا ہے لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے اعلان صرف نعروں تک محدود رہیں گے اور ان دعوؤں اور وعدوں کا حال بھی ویسا ہی ہوگا جیسا نواز شریف کے اعلان کردہ اڑھائی ارب روپے کے پیکیج کا ہوا تھا۔
فیس بک کمینٹ