سندھ کے ایک محترم دانشور دوست نے کئی سال پہلے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب میں جو مذہبی انتہاپسندی کی لہر چل پڑی ہے، یہ جو ہر منبر سے فتوے دیے جا رہے ہیں، جو کافر کافر کے نعرے گونج رہے ہیں، جو سر تن سے جدا کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں یہ سلسلہ کشمور سے آگے نہیں چل سکے گا۔اُن کا کہنا تھا سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے، یہاں کا مولوی بھی بھٹائی کا کلام جانتا ہے، یہاں پر مذہبی رواداری ہے کیونکہ آپ پنجاب میں پیدا ہوں تو ساری زندگی بغیر کسی غیرمسلم سے کوئی تعلق بنائے گزار سکتے ہیں۔
اکثر پنجابیوں نے ہندو صرف فلموں میں دیکھے ہیں جبکہ سندھ میں غیرمسلموں خصوصاً ہندوؤں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر بھی ہندو مل جائے گا، گلی کے نکڑ پرجنرل سٹور کا مالک بھی غیرمسلم ہو گا۔
میرے دوست کا پیغام تھا کہ سندھ شہباز قلندر، بھٹائی اور سرمست کی دھرتی ہے، مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر غصے کی جو فصل پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں میں پک کر تیار ہوئی ہے وہ سندھ میں اُگ ہی نہیں سکتی۔گذشتہ ہفتے عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز پر گستاخی کا الزام لگنے کے بعد پولیس کی حراست میں اُن کی ہلاکت ایک خوفناک واقعہ تھا۔
پنجاب اور بلوچستان میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو کسی قبرستان میں دفنانے نہیں دیا گیا اور جب خاندان والوں نے انھیں ذاتی قبرستان میں دفن کرنے کی کوشش کی تو لاش چھینی گئی، اسے جلانے کی کوشش ہوئی۔ پھر اُن کی رشتہ دار خواتین آخری دیدار کی کوشش میں ننگے پاؤں بھاگتی رہیں۔
یہ خبر پڑھ کر دل میں سوال اٹھا کہ کیا سندھ سے بھٹائی کا سایہ اٹھ گیا ہے؟ تاہم دو دن بعد ہی سندھ کے باسیوں نے ڈاکٹر شاہنواز کا جنازہ پڑھ کر اُن کی قبر پر اجرکیں اور پھول چڑھا کر اور شاعر یوسف لغاری کا کلام گا کر ثابت کیا کہ سندھ کی صوفی روح پر زخم آئے ہیں مگر وہ زندہ ہے۔
عمر کوٹ کے صحرا میں جو چیز دفن ہوئی ہے وہ سندھ کا صوفی کلچر نہیں ہے بلکہ کئی دہائیوں سے صوبے پر حکمران پیپلز پارٹی کی وہ شبیہ ہے جس میں وہ کبھی خود کو سوشلسٹ کہتی ہے، کبھی سکیولر تو کبھی لبرل اور جب ان کے قول و فعل میں تضاد پر سوال اٹھایا جائے تو وہ اپنے شہیدوں کی تصویروں کے پیچھے منھ چھپا لیتی ہے۔
سندھ پر پیپلز پارٹی اتنے عرصے سے راج کر رہی ہے کہ ایک پوری نسل کو یاد بھی نہیں کہ یہ پارٹی کبھی مظلوم تھی۔ پیپلز پارٹی کے آخری بڑے شہید سلمان تاثیر تھے جنھیں ان کے اپنے پولیس محافظ ممتاز قادری نے گستاخی کی تہمت لگانے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
وہ قتل دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا لیکن پنجاب میں اُن کا جنازہ پڑھانے کے لیے امام ڈھونڈنے میں دشواری ہوئی تھی۔ سندھ حکومت نے اس شہادت سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ ’قاتل‘ کانسٹیبل سے ترقی کر کے ایس پی اور ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچ گئے ہیں جو اپنے زیرِ حراست ڈاکٹر شاہنواز کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے بعد پھولوں کے گلدستے اور اجرکیں وصول کرتے ہیں۔ یہ تحفے دینے والوں میں پیپلز پارٹی کے اپنے ارکانِ اسمبلی بھی شامل ہیں۔
بعد میں کچھ دنوں کے لیے معطلی، انکوائری وغیرہ کا اعلان ہو چکا لیکن جن لوگوں نے انھیں ان عہدوں پر لگایا اور پھر جنھوں نے ڈاکٹر شاہنواز کے بہیمانہ قتل پر مبارکبادیں دی اور جشن منایا ان کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے بلکہ خوف کا یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی کا لبرل سے لبرل وزیر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں اگر گستاخی ہوئی تو قانون کو موقع ملنا چاہیے اور یہ صحیح اسلام نہیں ہے۔
وہ صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دیکھیں ہم سلمان تاثیر اور ڈاکٹر شاہنواز سے بہتر مسلمان ہیں، کہیں ہم پر وہ والی تہمت نہ لگا دینا جس کے بعد ہمارے گھر کی بیبیاں صحرا میں ہمارے آخری دیدار کے لیے ننگے پاؤں بھاگتی پھریں۔
گستاخی کے نام پر جتھے بنا کر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے سدباب کے اسباب پیپلز پارٹی کی حکومت کے پاس سالہا سال سے موجود ہیں۔ پولیس اپنی ہے، تعلیم کا محکمہ اپنا ہے۔ سندھی میڈیا کبھی خوشی کبھی مجبوری سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتا آیا ہے تو پھر پیپلز پارٹی اپنے آپ کو کبھی مجبور، کبھی معذور اور ہمیشہ مظلوم کیوں ٹھہراتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی کو ایک فوجی آمر نے شہید کیا، بینظیر اور ان کے بھائی کی شہادت بھی ایسے عناصر کے ہاتھوں ہوئی جن کو کبھی خاندان اور کبھی اس کے نظریے سے دشمنی تھی۔
سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی والے بلاول بھٹو اور ان کے دوبارہ صدر بننے والے والد پر الزام ہے کہ انھوں نے قاتلوں سے ہاتھ ملایا۔ پرانے راجے مہاراجے بھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے ماں باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیتے تھے شاید بلاول بھٹو نے بھی یہ صلح جوئی اپنی پارٹی اور ملک کے وسیع تر مفاد میں کی۔ انھوں نے اپنے عوام کو انھی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جنھوں نے بھٹو خاندان کو اتنے شہید دیے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ سندھ کہ جہاں ہر گھر سے بھٹو نکلنا تھا وہاں سے ممتاز قادری نکل رہا ہے اور جیالے اسے اجرکیں پہنا رہے ہیں، پھولوں کے گلدستے پیش کر رہے ہیں۔
حق موجود، صدا موجود لیکن بھٹو کی روح عمر کوٹ کے صحرا میں گُم۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ