کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
اندھیر لمحوں میں تم پہ سایہ فگن رہوں گا
مَیں رات میں روشنی کی کوئی کرن سنبھالوں گا تیری خاطر
کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
نہیں کہا تھا پہنچ نہ پائے گی کوئی غم کی رسید تم کو
ملے گی کوئی نوید تم کو
میں سارے سکھ دے کے تیرے چہرے کی ہر خوشی کو خرید لوں گا
نہیں کہا تھا کہ مجھ پہ اتنا تُو مان رکھنا
کبھی جو پاﺅں پھسل گیا تو سنبھال لوں گا
کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
تمہارے سر پر اک ایسی چھت ہو
جو میری چاہت کے سارے رنگوں سے جھلملائے
تمہارے چہرے کو جگمگائے
تمہارے دامن میں دے وہ خوشیاں
کہ جن سے غم بھی دبک کے رستہ بدل ہی جائیں
کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
زمانہ تم کو کبھی جو دیکھے
تو میری چاہت کے رنگ سارے
تمہاری آنکھوں میں جگمگا کر
گلاب لمحے امر کریں گے
کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
میں سرد راتوں کی یخ ہواﺅں کو روک دوں گا
میں گرمیوں میں بہار رُت کی ہوا بنوں گا
میں حبس موسم میں تیری خاطر کہیں سے لاﺅں گا تازہ جھونکے
کبھی نہیں یہ کہا تھا اُس نے
مگر کبھی جو وہ خواب بُنتا تو جان لیتا
کہ خواب روحوں کا رابطہ ہیں
کہ خواب الہام ہیں خدا کا
کہ خواب دیکھیں تو جستجو ہو
کہ خواب تعبیر سے جڑا ہے
کبھی نہیں کچھ کہا تھا اُس نے
کبھی نہیں کچھ بُنا تھا اُس نے
کبھی نہیں کچھ کہا تھا میں نے
کبھی نہیں کچھ سنا تھا اُس نے
*** منزہ اعجاز
فیس بک کمینٹ