میں صبح 5 بجے پھر کمرے سے نکل آیا۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے میں اس دن کو طلوع ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ دن تو روز جیسا ہی تھا مگر کچھ زیادہ اجلا اور شفاف دکھائی دے رہا تھا۔ سید پور کی گلیوں سے نکلتا ہوا میں ملتان روڈ پر آگیا۔ شاہ نور سٹوڈیو کے گیٹ کے ساتھ ایک دکان سے میں روز ناشتہ کرتا ہوں اس روز بھی وہیں سے ناشتہ کیا۔ سڑکوں پر ویسی ہی رونق تھی جیسی میں رات دو بجے کے قریب چھوڑ کر گیا تھا۔ رات کو لاہور روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور اب جب دن نکلا تو منظر اور بھی خوبصورت ہو گیا۔ لگتا تھا پورے لاہور کو 3 رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے۔ سرخ، سیاہ اور سبز۔ ہر طرف یہی تین رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہر منظر انہی تین رنگوں میں سمٹ آیا ہے۔ سرخ لہو کا رنگ ہے، سیاہ ماتمی لباس کا رنگ اور سبز؟ ۔۔۔ سبز شاید گنبد کا رنگ ہو یا شاید قبروں پر ڈالی جانے والی چادروں کا رنگ ہو۔ بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے لیے پرچم کے رنگوں کا جب انتخاب کیا تو ان کے ذہن میں ان رنگوں کی یہ تقسیم یقیناً نہیں تھی مگر پارٹی کا پرچم اب انہی 3 علامات کا مرقع بن چکا ہے۔ آزادی کی علامت بن چکا ہے اور خون دینے کی روایت بن چکا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ پارٹی کے کتنے ہی کارکنوں نے جانوں کے نذرانے دیئے۔ رات ایک چوراہے میں کوئی عوامی شاعر پنجابی کی ایک نظم سنا رہا تھا۔ تین مصرعے تو ذہن میں نقش ہو کر رہے گئے۔ سِر دِتا سی / سِر لینے نے/ ہُن انج نیوندرے پینے نے ۔ شاکر دیکھ اس مصرعے میں ’’نیوندرے‘‘ کتنا خوبصورت استعمال ہوا۔ واقعی بہت خوبصورت زبان ہے پنجابی ۔ اب یہ مضمون کسی اور زبان میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ کبھی بھی نہیں باندھا جا سکتا۔ اور ’’نیوندرا‘‘ ۔ اس لفظ کا بھی ترجمہ ممکن نہیں۔ سو ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکن ’’نیوندرے‘‘ ڈالنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ صبح چھ بجے جہاز کی آمد کا وقت تھا۔ میں ایئرپورٹ سے کئی کلومیٹر دور تھا۔ مجھے تو کیا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ جہاز ابھی لینڈ کیا ہے یا نہیں۔ لیکن چھ بجے لاہور کی سڑکوں میں جو جہاں تھا اس نے زور دار نعرے کے ساتھ گویا بے نظیر کی آمد کا اعلان کر دیا۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، بھٹو کی تصویر بے نظیر، بے نظیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اور رات تک ’’بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی‘‘ کا جو نعرہ لگ رہا تھا وہ ’’بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے‘‘ کے نعرے میں تبدیل ہو گیا۔ ایک ہی لمحے میں منظر بدل گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے خوابوں کو تعبیر مل گئی ہے۔ خواب تعبیر پاتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت اس لمحے کی کیفیت یہی تھی کہ جیسے ہمیں سب کچھ مل گیا اور جیسے ہماری جدوجہد رنگ لے آئی ہے۔ میں ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ اور ائیرپورٹ جانا آج کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ عام دنوں میں اگر ایئرپورٹ جانا ہو تو اس کے لیے خاص روٹ کی ویگن یا بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ میں تو شاہ نور سٹوڈیو کے پاس رہتا ہوں جہاں سے ایئرپورٹ کے لیے کوئی براہ راست ویگن نہیں جاتی مجھے اگر یہاں سے ایئرپورٹ جانا ہو تو عام دنوں میں دو یا تین بسوں کو تبدیل کرنا پڑتا ہے لیکن 10 اپریل کی صبح لاہور کی تمام سڑکیں ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھیں۔ تمام راستے ایئرپورٹ پر ختم ہوتے تھے ہر بس اور ہر ویگن ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھی اور نان سٹاپ جا رہی تھی۔ سو میں دبئی چوک (اقبال ٹاؤن) سے پیپلز پارٹی کے پرچموں سے سجی ہوئی ایک بس میں سوار ہو گیا۔ بس کی چھت پر نوجوان سوار تھے ڈھول بج رہا تھا۔ شاکر ان دو دنوں کے دوران لاہور میں جتنا ڈھول بجایا گیا شاید ہی کبھی بجایا گیا ہو۔ ان دو دنوں کے دوران لاہور کی سڑکوں پر خلقت نے جتنا رقص کیا شاید ہی کبھی کیا ہو۔ پورا لاہور ناچتا گاتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس لاہور نے بہت برے دن بھی دیکھے۔ آہیں اور سسکیاں بھی دیکھیں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کو کوڑے بھی لگائے گئے، انہیں چوراہوں میں سرعام پھانسیاں بھی دی گئیں تاکہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر خون کی ہولی بھی کھیلی گئی، فائرنگ ہوئی، لاٹھیاں چلیں، آنسو گیس پھینکی گئی اگرچہ اس عہد سیاہ میں لوگوں کو رُلانے کے لیے آنسو گیس کے تردد کی ضرورت بھی نہیں کہ آنسو تو اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکے تھے مگر اس کے باوجود بے تحاشا آنسو گیس استعمال ہوئی اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں نے تیرگی کے خاتمے کے لیے اپنے جسموں کو چوارہوں میں آگ لگائی اور شمع ہر رنگ میں جلتی رہی سحر ہونے تک کی عملی تصویر بن گئے۔ تو شاکر اس لاہور نے جتنے دکھ دیکھے اور جتنے آنسو دیکھے یہ ان کے کفارے کا دن تھا۔ یہ خوشیوں کا دن تھا ناچنے گانے اور جشن منانے کا دن تھا۔ اور جشن منایا جا رہا تھا، ڈھول بج رہا تھا پوری شدت کے ساتھ ہر گلی اور محلے میں بج رہا تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھتی جا رہی تھی۔ بسیں، کاریں، ویگنیں، ٹرالیاں، ٹریکٹر، رکشے، ٹانگے، ریہڑیاں بس جسے جو ملا وہ اس پر ایئرپورٹ کی جانب گامزن تھا۔ ہماری رفتار بہت سست تھی، بہت ہی سست، گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ شیر پاؤ پل آگیا۔ آگے گاڑیوں کا جانا ممکن نہیں تھا۔ اور اب صبح کے 9 بجنے والے تھے۔ فیصلہ یہ کیا کہ اب میں دفتر چلا جاؤں تاکہ وہاں کچھ وقت حاضری دے کر دوبارہ جلوس میں شامل ہو سکوں۔ سوچا کہ میں اگر بارہ ایک بجے بھی دفتر سے نکلوں تو مال روڈ پر جلوس میں شامل ہو جاؤں گا۔ سو میں لبرٹی چوک میں وطن دوست کے دفتر میں پہنچ گیا۔ اب دفتر میں بھی کس کا دل لگنا تھا۔ دل تو جلوس میں اٹکا ہوا تھا۔ سو ٹیلی فون پر دوستوں سے رابطے شروع کئے۔ پہلا فون سعید بدر کو کیا کہ ان سے جلوس کی صورتحال معلوم ہو سکتی تھی۔ سعید بدر کے مزاج کا تمہیں علم ہے کہ وہ ضیاء الحق کے حامی اور مولوی قسم کے انسان ہیں سو خاصے بھنائے ہوئے لہجے میں بولے مجھے اس استقبال سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم لوگ تو پاگل ہو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ پھر انہوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی کہ جلوس میں مت جانا کوئی بڑا ہنگامہ اور خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا حضور میں نے آپ کی نصیحتوں پر پہلے کب عمل کیا ہے جو آج کروں گا۔ آپ بس یہ مہربانی کریں کہ اپنے کسی دوست رپورٹر سے یہ معلوم کر دیں کہ جلوس کی اس وقت کیا پوزیشن ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد وہ اس بات پر آمادہ ہوئے کہ میری خاطر وہ ایک ٹیلی فون کال ضائع کریں گے اور امروز کے دفتر فون کرکے اس جلوس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے جس سے خود انہیں صحافی ہونے کے باوجود کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اشرف جاوید کا دفتر مال روڈ پر واقع ہے۔ میں نے وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ صرف وہی نہیں دفتر کے بہت سے لوگ غیر حاضر ہیں ہاں اس کے ایک کولیگ نے یہ بتا دیا کہ مال روڈ پر ہجوم بہت زیادہ ہے لیکن جلوس کے ابھی کوئی آثار نہیں ہیں۔ پھر مجھے ایک اور کام یاد آگیا۔ مجھے یاد آیا کہ ملتان سے اسلم یوسفی آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں۔ یوسفی صاحب کا مجھے دو روز پہلے ہی خط موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنی لاہور آمد کی خبر دی تھی اور یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ میں اگر بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے جاؤں تو انہیں بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ یوسفی صاحب سمن آباد میں اپنی بیٹی کے ہاں رہائش پذیر تھے۔ ان کا خط ملا تو میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا کہ جب ایئرپورٹ کی طرف یا مینار پاکستان والے جلسے میں شرکت کے لیے جاؤں گا تو انہیں ساتھ لیتا جاؤں گا کہ یوسفی صاحب کی بھٹو خاندان کے ساتھ بہت جذباتی وابستگی ہے۔ لیکن کل سے میں سڑکوں کی جو صورتحال دیکھ رہا تھا اور جس قدر ہجوم متوقع تھا اس کی روشنی میں یوسفی صاحب کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں تھا۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں کسی بھگدڑ یا دھکم پیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں نے اسلم یوسفی صاحب کو فون کیا تو وہ جیسے جلوس میں جانے کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے۔ کہنے لگے آپ مجھے لینے کے لیے کب تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے بہت طریقے سے انہیں سمجھایا کہ اتنے ہجوم میں ان کا جانا مناسب نہیں عام دنوں میں تو وہ اپنے بڑھاپے اور بزرگی کا خوب ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اب مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ سانس پھول جاتا ہے۔ سفر میں دشواری ہوتی ہے مگر اس روز تو وہ جلسے میں جانے کے لیے تُلے بیٹھے تھے۔ وہ خود کو بوڑھا مان ہی نہیں رہے تھے۔’’نہیں بیٹا فکر نہ کرو ہم تو بھٹو صاحب کے جلسوں میں بھی جاتے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں بھی جاتے رہے ہیں۔ اس دھکم پیل اور بھگدڑ سے ہم نہیں گھبراتے۔‘‘ اب میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ یہاں محترمہ فاطمہ جناح اور بھٹو صاحب کے جلسوں سے کئی گنا بڑا ہجوم ہے۔ خیر بمشکل تمام وہ اس شرط پر جلسے سے دستبردار ہوئے کہ میں انہیں بے نظیر بھٹو کی تقریر کی ریکارڈنگ گھر آ کر سنواؤں گا۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ بے نظیر بھٹو کی تقریر تو میں نے ریکارڈ کرنا ہی تھی کہ اس کا تقاضا بشری رحمن صاحبہ نے بھی کیا تھا۔ بشری رحمن خود بہت اچھی مقرر ہیں اور سیاست بھی کر رہی ہیں سو وہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سننا چاہتی تھیں ۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈ ساتھ لے جاؤں گا اور جلسے سے بے نظیر بھٹو کی تقریر ریکارڈ کر لاؤں گا۔ میں نے جو تقریر ریکارڈ کی اس کی ایک کاپی تمہیں بھی کسی کے ہاتھ بھیج دوں گا۔ ڈاک میں تو یہ ممکن نہیں کہ تم ماشاء اﷲ سعودی عرب میں مقیم ہو۔ تصویر تو وہاں حرام ہے ممکن ہے عورت کی آواز بھی حرام ہو سو میں یہ انتہائی قیمتی کیسٹ ڈاک کے ذریعے بھیج کر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ واپس جلوس کی طرف آتا ہوں۔ سعید بدر نے دو ٹیلی فون ضائع کئے۔ پہلے انہوں نے امروز کے دفتر فون کر کے جلوس کی پوزیشن معلوم کی پھر مجھے فون کر کے بتایا کہ جلوس نے ابھی مال روڈ پر اپنا سفر شروع کیا ہے اور چئیرنگ کراس یا ریگل تک آتے آتے اسے شام ہو جائے گی۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے کہا سعید بدر صاحب مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں ہے۔ آپ متعصب ضیاء الحقی ہیں لہٰذا مجھے گمراہ کرنے کے لیے جلوس کی پوزیشن صحیح نہیں بتا رہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں شام کو ریگل چوک پہنچوں تاکہ جلوس ہی نہیں جلسہ بھی ختم ہو گیا ہو۔ ابھی وہ میرے اس حملے سے ہی نہیں سنبھلے تھے کہ میں نے ایک اور میزائل داغ دیا میں نے کہا جناب آپ کی گمراہ کن اطلاعات سے بچنے کے لیے میں نے اشرف جاوید کے دفتر میں رابطہ کر لیا ہے۔ سٹیٹ بینک مال روڈ پر ہی واقع ہے اور اشرف جاوید کے ایک کولیگ نے کہا ہے کہ وہ مجھے جلوس کی پوزیشن سے آگاہ کر دے گا۔ بس شاکر مت پوچھو سعید بدر صاحب کا کیا حال ہوا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹیلی فون کے اندر سے نکل کرمجھے امرود سمجھ کر کھا جائیں۔ انہوں نے خاصی ثقیل قسم کی گالیاں عطا کیں جن کا مطلب کسی پیدائشی لاہوریے سے معلوم کروں گا اس کے بعد کہنے لگے کہ تم سُرخے ہو اور سُرخے اسی طرح احسان فراموش، بدلحاظ اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ٹیلی فون کالز کے ضائع ہونے کا پہلے ہی ملال تھا میری اس گفتگو کے بعد اور بھی ملال ہوا ہو گا۔ شاکر میں تھک گیا ہوں صبح کے تین بج چکے ہیں۔ خط بہت طویل ہو گیا ہے۔ اب میں سو رہا ہوں۔ باقی باتیں کل ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو میاں کل جو خط تمہیں لکھنا شروع کیا تھا آج اسے مکمل کرتا ہوں۔ تم نے اپنے مختصر خط میں بار بار اصرار کیا ہے کہ میں 10 اپریل کے جلسے کی روداد تفصیل سے لکھوں کہ تم وہاں بدوؤں کے ملک میں خبروں سے محروم ہو۔ پرانے اور سنسر شدہ اخبارات پڑھتے ہو۔ اب آگے کا احوال سنو۔ شاکر سچ پوچھو تو مجھے یہ ساری تفصیل لکھنے کا لطف بھی بہت آ رہا ہے۔ میں اسے انجوائے کر رہا ہوں۔ میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے وہ سب کچھ دیکھا جس سے تم محروم رہے ہو۔ میں ایک تاریخی واقعے کا عینی شاہد ہوں۔ ایک ایسے واقعے کا کہ جو دوبارہ کبھی رونما ہی نہیں ہو گا۔ آج میں تمہیں خط میں اس کا احوال سنا رہا ہوں۔ کل کو جب تم ملو گے تو زبانی بھی سناؤں گا اور بے شمار باتیں بے شمار جزئیات ایسی بتاؤں گا کہ جو تحریر کرنے بیٹھوں تو پوری کتاب بن جائے۔
دیکھو بات پھر کہیں کی کہیں نکل گئی۔ اب احوال کو مختصر کرتے ہوئے تمہیں ریگل چوک لیے چلتا ہوں۔ 10 اپریل سہ پہر تین بجے میں ریگل چوک میں موجود تھا اور سامنے ٹرک پر بے نظیر بھٹو ہاتھ لہرا کر میرے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔ تم میرے اس جملے پر مسکرا رہے ہو ناں کہ لاکھوں کے ہجوم میں بے نظیر میرے نعرے کا ہی جواب کیوں دے رہی تھیں۔ شاکر یقیناً وہ میرے نعرے کا نہیں وہ سب کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں لیکن میرے محسوسات یہی تھے کہ جیسے وہ صرف میرے نعرے کا جواب دے رہی ہیں۔ میں نے نعرہ ہی اتنی قوت سے لگایا تھا کہ لاکھوں آوازوں میں بھی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میری آواز ہی ان تک پہنچی ہو گی۔ اور صرف میری ہی انہیں اس ہجوم میں موجود ہر شخص کی یہی کیفیت تھی۔ میں بے نظیر بھٹو کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ ایک خواب حقیقت بن چکا تھا۔ لیڈر ہمارے سامنے تھی۔ بے نظیر ہمارے سامنے تھے۔ بھٹو کی تصویر ہمارے سامنے تھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں بے نظیر بھٹو کی جھلک دیکھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ میں نے پہلی بار بے نظیر صاحبہ کو دیکھا تھا اور مجھے یاد آرہا تھا وہ لمحہ جب میں نے پہلی اور آخری مرتبہ بھٹو صاحب کو دیکھا تھا۔ کینٹ میں ہمارے گھر کے پاس مال روڈ سے بھٹو صاحب کی سواری گزری تھی۔ 1977ء کے الیکشن سے کچھ پہلے کے دن ہوں گے۔ سردیاں تھیں۔ سامنے سڑک پر جب پولیس والے تعینات ہو جاتے تھے تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ بھٹو صاحب یہاں سے گزرنے والے ہیں۔ وہ مال روڈ اور چوک عزیز ہوٹل کے راستے نواب صادق حسین قریشی کے گھر جایا کرتے تھے۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں جو بہت سے میر جعفر اور میر صادق شامل تھے نواب صادق حسین قریشی بھی انہی میں سے ایک تھا۔ تو ایک روز جب پولیس سکواڈ کے سائرن کی آواز سنائی دی تو میں بھاگتا ہوا ننگے پاؤں گھر سے باہر نکل آیا (مجھے نہیں یاد کہ اس سے پہلے یااس کے بعد کبھی میں ننگے پاؤں گھر سے نکلا ہوں) اور سڑک پر جا پہنچا۔ بس ایک لمحے میں بھٹو صاحب کی جیپ میرے سامنے سے گزر گئی۔ انہوں نے ماؤ کیپ پہن رکھی تھی اور وہ کھلی جیپ میں کھڑے تھے۔ بہت سے لوگ سڑک کے کنارے جمع تھے۔ سب نے تالیاں بجائیں میں نے بھی تالیاں بجائیں۔ بہت زور زور سے تالیاں بجائیں۔ اورجب بھٹوصاحب نے ہاتھ ہلایا تو مجھے محسوس ہواکہ جیسے انہوں نے مسکرا کر میری ہی تالیوں کا جواب دیا ہے۔ اور 10 اپریل کو بھی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے صرف میرے ہی نعرے کا جواب دیا ہے۔ بہت جذباتی لمحہ تھا شاکر۔ ایک آنسو \”benazirbhutto-afp\”میری آنکھوں سے نکلا اور میرے ساتھ کھڑے شخص کے دامن میں جذب ہو گیا کہ اس ہجوم میں وہ آنسو سڑک پر گر ہی نہیں سکتا تھا اسے جذب کرنے کے لیے بہت سے کندھے اور بہت سے دامن موجود تھے۔ مجھے تو امید ہی نہیں تھی کہ میں ٹرک کے قریب پہنچ سکوں گا میں صفانوالہ چوک سے گھسٹنا شروع ہوا تھا۔ تا حدِ نظر سر ہی سر تھے۔ ریگل چوک بہت دور تھا۔ ایک بار تو یوں لگا کہ میں کبھی چوک تک نہ پہنچ سکوں گا۔ پھر ایک ریلا آیا اور مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ میں خود تو نہیں چل رہا تھا بس لوگ چل رہے تھے۔ ایک سیلاب تھا انسانوں کا جس کے ساتھ میں بہہ رہا تھا۔ یہ سیلاب مجھے چوک کے قریب لے آیا اور پھر میں لوگوں کو چیرتا ہوا چوک میں لگے لوہے کے پائپوں تک پہنچ گیا۔ میں نے مسجد شہداء کے سامنے سڑک کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ لگے لوہے کے پائپوں کو تھام لیا اور یہی پائپ میرا سہارا بن گئے ۔ اب ہجوم مجھے سڑک سے دور نہیں کر سکتا تھا کہ جب کوئی ریلا آتا اور مجھے دھکیلنے کی کوشش کرتا تو میں ان پائپوں کو مضبوطی سے تھام لیتا تھا۔ وہ پائپ مجھے دوسری جانب نہیں جانے دیتے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس سے مناسب جگہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ تاحدِ نظر ہجوم، سجے ہوئے ٹرک اور گاڑیاں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بے نظیر والا ٹرک یہاں سے گزر چکا ہے یا ابھی آنے والا ہے۔ ہر طرف ایک جیسا جوش و خروش، ایک سے نعرے، لہراتے پرچم اور ڈھول تاشے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کسی سے پوچھنا بھی چاہا تو معلوم نہ ہو سکا کہ بے نظیر صاحبہ نے ریگل چوک کراس کر لیا ہے یا نہیں۔ لیکن مختلف مکانوں، درختوں اور ٹریفک سگنلز والے کھمبوں پر شست لگا کر بیٹھے ہوئے فوٹو گرافروں کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ٹرک ابھی تک یہاں نہیں پہنچا۔ اور ایک مزے کے بات سنو۔ ٹریفک سگنل کا ایک پائپ جو دوہرا ہو کر سڑک کے کم و بیش درمیان تک آتا ہے اس پائپ پر فوٹو گرافر فاضل بھٹی ٹانگیں پھنسا کر بڑی مہارت سے بیٹھا تھا۔ فاضل بھٹی تو تمہیں اچھی طرح یاد ہو گا۔ نوائے وقت ملتان کے لیے فوٹو گرافی کرتا تھا۔ گنجا سا، دبلا پتلا۔ جو کیمرے کے شٹر کے ساتھ اپنا منہ کھولتا تھا اور بعض اوقات جب کوئی تقریب طوالت اختیار کرتی تو کرسی پر منہ اور کیمرہ بند کر کے سو بھی جاتا تھا۔ آج کل وہ لاہور ہی میں ہے۔ اس خطرناک پوزیشن میں بیٹھا کیمرے کے نہیں اپنی عینک کے شیشے صاف کر رہا تھا۔ میں دو بجے سے یہاں کھڑا تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ ٹرک کے آثار دکھائی دیئے۔ ٹرک آہستہ آہستہ رینگتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں۔ سرخ گلاب کے پھول بھٹو کی تصویر بے نظیر پر نچھاور کئے جا رہے تھے۔ چھتوں سے عورتیں دوپٹے پھینک رہی تھیں اور بے نظیر وہ دوپٹے اپنے سر پر اوڑھ رہی تھیں۔ خوشی سے تمتماتا چہرہ۔ سر پر چلچلاتا سورج، صبح چھ بجے سے وہ ٹرک میں کھڑی تھیں اور اب 3 بج چکے تھے۔ سامنے ایک مکان کی چھت پر ایک عورت آئس کریم کھا رہی تھی۔ بے نظیر نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ آئس کریم مجھے بھی کھلاؤ۔ عورت نے آئس کریم ٹرک کی طرف اچھال دی۔ آئس کریم کا کچھ حصہ ہجوم پر بھی گرا مگر وہ آئس کریم بے نظیر تک پہنچ ہی گئی۔ انہوں نے اس عورت کا شکریہ ادا کر کے وہ آئس کریم کھانا شروع کر دی۔ فضا ’’نعرہ نعرہ نعرۂ بھٹو، جیوے جیوے جیوے بھٹو‘‘ سے گونج اُٹھی۔ بے نظیر کو شاید خود بھی اتنے بڑے استقبال کی توقع نہ ہو گی۔ میرا ہی نہیں دو چار روز پہلے تک ہر شخص کا یہی خیال تھا کہ بس مناسب سا استقبال ہو گا۔ یہ تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پورا پاکستان لاہور میں اُمڈ آئے گا اور لاہور کی سڑکیں تنگ پڑ جائیں گی۔ ٹرک آہستہ آہستہ آگے نکل گیا۔ اب دوبارہ اس ٹرک کے قریب پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا۔سو میں ہجوم میں گم ہو گیا۔ جلوس کی مخالف سمت میں چلنے لگا یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ جلوس کتنا طویل ہے۔ اس جلوس میں بہت سے رنگ تھے۔ سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی سب اس کارواں میں شریک تھے۔ ہر زبان میں لکھے ہوئے استقبالیہ بینر، ہر صوبے کا لباس، یہ جلوس نہیں تھا یہ پاکستان کا کلچر تھا۔ کلچر جو آزادی کے نعرے لگا رہا تھا۔ ہجوم مشتعل ہونے کے باوجود نظم و ضبط میں تھا۔ غصہ صرف چہروں اور نعروں سے عیاں تھا۔ ’’امریکہ نے کتا پالا، کالی کالی مونچھوں والا‘‘۔ بھئی کیا زبردست نعرہ ہے۔ بس مجھے لفظ مونچھوں پر اعتراض ہے یہاں اگر مونچھوں کی جگہ ’’تسموں‘‘ استعمال کیا جاتا تو نعرہ مزید بامعنی ہو جاتا اور بھٹو صاحب کی روح بھی خوش ہوتی کہ انہوں نے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں جنرل ضیاء کی مونچھوں کے تسمے بنانے ہی کی تو بات کی تھی۔ اور بات یہیں سے تو شروع ہو کر پھانسی تک پہنچی تھی۔ ایک ٹرک میں ایک کتا بھی بٹھایا گیا تھا۔ اصلی والا کتا۔ اس کے گلے میں ضیاء الحق کی تصویر ڈالی گئی تھی، وقفے وقفے سے اس کی پٹائی بھی ہو رہی تھی۔ سچ پوچھو تو مجھے کتے پر ترس آیا۔ لیکن شاکر یہ نفرت ہے، غصہ ہے، پابندیوں، پھانسیوں، کوڑوں اور جلاوطنیوں کا ردِ عمل ہے۔ میں چئیرنگ کراس تک یہ سارے منظر دیکھتا رہا اور پھر جلوس سے الگ ہو گیا۔
اب مجھے مینار پاکستان جانا تھا۔ جہاں جلوس کے اختتام پر جلسۂ عام ہوگا۔ میں جلوس کے پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتا تھا تاکہ وہاں بھی کوئی مناسب جگہ مل سکے۔ مینار پاکستان۔ ایک تاریخی جگہ کہ جہاں 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اور یہی مینارِ پاکستان آج 10 اپریل کو ایک اور تاریخی منظر دیکھنے والا تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی کے جلسے کو ناکام کرنا ہو تو اسے مینارِ پاکستان لے جاؤ کہ منٹو پارک کے گراؤنڈ اتنے وسیع ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ لاکھوں لوگ بھی سما جائیں تو گراؤنڈ خالی نظر آتا ہے۔ مگر شاکر آج یہ گراؤنڈ چھوٹے پڑ گئے تھے۔ میں جلوس کی آمد سے بہت پہلے وہاں پہنچا تو گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے میں بھی لوگ ہی لوگ تھے بھاٹی گیٹ تک تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ محتاط اندازہ ہے کہ جلسے میں 15 لاکھ افراد تھے مگر بی بی سی کا تبصرہ بہت اچھا ہے کہ وہاں اتنی خلقت تھی کہ جسے گِنا نہیں جا سکتا ۔ بے نظیر بھٹو جب وہاں پہنچیں تو شام ہونے والی تھی۔ ٹرک کو سٹیج تک لے جایا گیا اور پھر بے نظیر بھٹو کی آواز سنائی دی۔ ان کا لب و لہجہ انگریزی تھی۔ اردو انہیں ٹھیک طرح بولنا نہیں آتی۔ مگر جوش اور ولولہ بے پناہ ہے۔ واقعی بھٹو کی تصویر، بلکہ بھٹو کی تقریر، بے نظیر نے جلسے میں ایک نظم پڑھی ’’میں باغی ہوں، میں باغی ہوں ۔۔۔ جو چاہے مجھ پر ظلم کرو‘‘ ۔ بڑی زور دار نظم تھی وہ نظم انہوں نے بہت پرجوش طریقے سے پڑھی اور پھر جلسے کا اختتام ہوا۔ اختتام بھی زور دار تھا۔ بے نظیر بھٹو نے لاہوریوں کے انداز میں ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ لگا کر سب کو نہال کر دیا۔ اور پھر ’’جاوے ای جاوے، جاوے ای جاوے‘‘ کو اس تواتر سے کہا کہ باقاعدہ ردھم بن گیا۔ پوری خلقت ’’جاوے ای جاوے‘‘ کہنے لگی۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو جلسہ ختم ہو گیا لیکن جلسہ ختم کہاں ہوا تھا۔ ’’جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ واپس جانے والے قافلوں کا زادِ سفر بن گیا تھا۔ اب پاکستان کی ہر گلی اور محلے میں ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ سنائی دے رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
لو بھائی شاکر دوسری رات تمام ہوئی اور یہ خط بھی ۔۔۔ تمہیں باخبر رکھنے کے لیے بہت مشقت کرنا پڑی ۔ تمہیں کس نے کہا تھا کہ بدوؤں کے دیس میں جاؤ اور دنیا سے بے خبر ہو جاؤ۔۔۔۔ بس اب خط سمیٹ رہا ہوں۔ صبح دفتر بھی جانا ہے اور پرسوں امتحان بھی ہے۔ جاتے جاتے ایک نعرہ ۔ ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ لیکن بھائی یہ تو بتاؤ کہ ضیاء الحق کب جاوے گا۔۔۔؟
او کے ۔ ڈئیر چلتا ہوں اب
والسلام
تمہارا رضی