شاکر حسین شاکر کے نام ۔۔۔۔۔۔ بعد از سلام
تمہارا خط اس مرتبہ خلافِ معمول کچھ مختصر تھا۔ میری عادت ہے کہ تمہارا خط ملتے ہی اسے پہلے ایک مرتبہ شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں۔ پھر دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں یعنی ایک ہی نشست میں دو مرتبہ پڑھتا ہوں۔ پھر جب جواب دیتا ہوں تو اسے پھر سے دو مرتبہ پڑھتا ہوں ۔ لیکن چونکہ یہ خطر مختصر تھا اس لیے میں نے اپنا ٹائم پورا کرنے کے لیے اسے چار چار مرتبہ پڑھا اور ہر مرتبہ اس سے نیا لطف لیا۔ ہر بار تمہارے لہجے کو محسوس کیا۔ ہر مرتبہ تمہیں اپنے سامنے پایا، ہنستے، مسکراتے اور جاندار قہقہہ لگاتے۔ اور پھر ہر مرتبہ خود کو تم سے دور پایا۔ بہت ہی دور، خط کل ملا تھا۔ جواب آج لکھ رہا ہوں۔
شاکر حسین شاکر کے نام ۔۔۔۔۔۔ بعد از سلام
تمہارا خط اس مرتبہ خلافِ معمول کچھ مختصر تھا۔ میری عادت ہے کہ تمہارا خط ملتے ہی اسے پہلے ایک مرتبہ شروع سے آخر تک پڑھتا ہوں۔ پھر دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں یعنی ایک ہی نشست میں دو مرتبہ پڑھتا ہوں۔ پھر جب جواب دیتا ہوں تو اسے پھر سے دو مرتبہ پڑھتا ہوں ۔ لیکن چونکہ یہ خطر مختصر تھا اس لیے میں نے اپنا ٹائم پورا کرنے کے لیے اسے چار چار مرتبہ پڑھا اور ہر مرتبہ اس سے نیا لطف لیا۔ ہر بار تمہارے لہجے کو محسوس کیا۔ ہر مرتبہ تمہیں اپنے سامنے پایا، ہنستے، مسکراتے اور جاندار قہقہہ لگاتے۔ اور پھر ہر مرتبہ خود کو تم سے دور پایا۔ بہت ہی دور، خط کل ملا تھا۔ جواب آج لکھ رہا ہوں۔
تم نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے استقبال کی روداد معلوم کی ہے۔ بھائی اگر تم نہ بھی پوچھتے تو میں نے آج تمہیں یہی احوال سنانا تھا کہ آج کل پاکستان میں اس استقبال اور جلسے کے سوا کسی کے پاس کہنے کو اور کوئی موضوع ہی نہیں ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگلے کئی مہینوں تک بس یہی جلسہ موضوعِ گفتگو رہے گا۔ شاکر میں نے تمہیں اس روز بہت مس کیا۔ بلکہ میں نے اپنے ہر دوست کی کمی محسوس کی۔ وہ ایک ایسا تاریخی لمحہ تھا اور ایسا تاریخی منظر تھا جو شاید پاکستان کی تاریخ میں دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہ ملے۔ میں خود کو خوش "قسمت’’ سمجھتا ہوں کہ میں اس منظر کا حصہ تھا۔ تم جن لمحوں کی تصویروں کے لیے ترستے ہو میں نے وہ لمحے خود دیکھے ہیں۔ میں لاکھوں افراد کے اس ہجوم میں شامل تھا جو آمریت کے خلاف احتجاج کے لیے لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا۔ شاکر لاہور کی سڑکوں پر میں گزشتہ 8 ماہ سے گھوم رہا ہوں مگر لاہور مجھے کبھی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا 10 اپریل کو تھا۔ اور 10 اپریل ہی کیوں 9 اپریل کی رات بھی تو لاہور بہت خوبصورت تھا۔ آمریت کی طویل رات کو ختم کرنے کے لیے جمع ہونے والوں نے اس رات کو دن میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاکر وہ رات تو نہیں تھی امید کی ایک روشنی لیے آئی تھی وہ رات۔ سب سڑکوں پر نعرے لگاتے تھے اور رقص کرتے تھے۔ میں اس ہجوم میں تنہا تھا مگر خود کو تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا میرے جیسے کئی دبے کچلے اور روشنی کے طلب گار لوگ میرے ساتھ تھے۔ ضیاء الحق مردہ باد، ضیاء الحق مردہ باد ، ضیاء الحق مردہ باد۔ یہ نعرہ ہم نے سکول میں بھی لگایا تھا ، کالج میں بھی لگایا لیکن شاکر اس نعرے کا جو لطف 9 اور 10 اپریل کو آیا اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ ہم تو اسے نعرہ سمجھتے تھے مگر اب معلوم ہوا کہ یہ نعرہ نہیں ایک حقیقت ہے۔ بھٹو واقعی زندہ ہے۔ جسے انہوں نے 4 اپریل 1979ء کو رات کی تاریکی میں پھانسی دی تھی وہ بھٹو 9 اپریل 1986ء کی رات لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا۔ لاکھوں افراد رقص کرتے تھے، دھمال ڈالتے تھے اور ہر شخص بھٹو تھا۔ 9 اپریل کی رات لاہور میں شب برات اور 10 اپریل کا دن عید کی طرح پررونق تھا۔ میں 9 اپریل کو رات 8 بجے مینار پاکستان گیا تو وہاں عجب سماں تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہ سٹیج دیکھنے آئے تھے جو بے نظیر صاحبہ کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ یار میں نے موچی دروازے میں ایک دو سرکاری جلسیاں بھی دیکھی ہیں۔ بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی کی کوششوں سے وہاں جن بھیڑ بکریوں کو جمع کیا جاتا ہے ان کی تعداد بھی اس ہجوم سے کم ہوتی ہے جو یہاں صرف سٹیج دیکھنے کیلئے جمع ہو گیا تھا اور بے نظیر بھٹو کو تو یہاں اگلے روز شام تک پہنچنا تھا۔ لوگ ڈھول پر رقص کرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے۔ ہر طرف پیپلز پارٹی کا سہ رنگا پرچم لہرا رہا تھا۔ سرخ، سیاہ اور سبز رنگ کے پرچموں اور اسی رنگ کے کپڑوں نے عجب سماں باندھ دیا تھا۔ مینار پاکستان کے سائے میں بہت بڑا سٹیج تیار کیا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن سٹیج کو سجا رہے تھے۔ اپنے شہید قائد کی بیٹی کے استقبال کے لیے اہل لاہور دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے۔ یہ دیدہ و دل فرشِ راہ کیسے کئے جاتے ہیں اس کا مفہوم تم کبھی بھی نہ سمجھ سکو گے کہ تم نے یہ منظر دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس محاورے کو صرف وہی سمجھ سکے گا جس نے 9 اور 10 اپریل کا لاہور دیکھا ہے۔ میں مینار پاکستان کے احاطے سے باہر آیا اور پیدل بھاٹی گیٹ کی طرف روانہ ہو گیا چوک بھاٹی گیٹ پر دن کا سماں تھا۔ سرچ لائٹیں لگی ہوئیں، استقبالیہ سٹیج بن چکا تھا۔ اندرون لاہور کے گلی محلوں سے جلوس باہر آ رہے تھے۔ بھاٹی گیٹ سے میں لوہاری اور پھر وہاں سے پیدل ہی انار کلی سے ہوتا ہوا مال روڈ پر آ گیا۔ ہر طرف ایک ہی منظر ایک ہی جشن ۔۔۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کی قد آدم تصاویر، قمقمے، جھنڈیاں، پرچم اور 3 رنگوں میں رنگے ہوئے درودیوار ۔۔۔ لاہور والوں نے اپنی قائد کے استقبال کے لیے پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ میں صبح سے جاگ رہا تھا پہلے دفتر میں ڈیوٹی دی اور اب شام 6 بجے سے سڑکوں پر موجود تھا۔ پیدل چل چل کر تھک چکا تھا مگر اس کے باوجود میں اپنے کمرے میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ تھکاوٹ تو بہت تھی مگر محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لوگوں کا جوش و خروش اور خوشی سے تمتماتے چہرے دیکھ کر ساری تھکاوٹ ختم ہو جاتی تھی۔ مال روڈ کا نظارہ کرنے کے بعد میں پرانی انار کلی سے ہوتا ہوا چوبرجی کی طرف چلا گیا۔ وہاں بھی وہی جشن، وہی نعرے، وہی ہجوم، لاؤڈ سپیکروں پر ترانے چل رہے تھے۔ سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد تجھے، اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔ مرد مومن کی نیندیں تو خیر حرام ہو چکی تھیں البتہ پورا لاہور مردِ مجاہد کی صورت میں جاگ رہا تھا۔ لاہور میں رت جگا تھا۔ بے نظیر صاحبہ کے طیارے نے صبح 6 بجے ایئر پورٹ پر لینڈ کرنا تھا سنا ہے ایئرپورٹ پر بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد پہنچ چکی تھی۔ میں خود ایئرپورٹ جانا چاہتا تھا میری بھی خواہش تھی کہ ہزاروں لاکھوں افراد کی طرح میں بھی یہ رات ایئرپورٹ پر گزاروں مگر مجھے جاگتا اور رقص کرتا لاہور خود سے جدا نہ ہونے دے رہا تھا۔ رات گئے تک میں اسی طرح لاہور کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ مختلف چوراہوں پر رقص کرنے والوں کے ساتھ رقص کرتا رہا۔ نعرے لگانے والوں کے ساتھ نعرے لگاتا رہا۔ اور پھر ملتان روڈ سے ہوتا ہوا شاہ نور سٹوڈیوز کے سامنے والے محلے میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ میں کچھ دیر آرام کر کے صبح کے لیے تازہ دم ہونا چاہتا تھا۔ صبح مجھے دفتر بھی جانا تھا اور پھر وہاں سے جلدی فرار ہو کر بے نظیر بھٹو صاحبہ کے استقبال میں بھی شامل ہونا تھا۔ کمرے میں آکر میں نے کوشش کی کہ کچھ دیر سو جاؤں مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج رات جس طرح پورا لاہور سڑکوں پر اُمڈ آیا ہے کل جب بے نظیر بھٹو پاکستان پہنچ جائیں گی اور ملک بھر سے آنے والے تمام قافلے بھی لاہور پہنچ چکے ہوں گے تو کیا منظر ہوگا۔ بس جی چاہتا تھا فوراً دن نکل آئے اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد کی خبر سننے کو مل جائے۔ بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی۔ یہ نعرہ بار بار میرے کانوں میں گونجتا رہا۔ انقلاب، عوامی انقلاب ۔ آمریت سے نجات کے لمحات قریب آ رہے ہیں۔ فیض صاحب نے کہا تھا ناں ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔ جو لوحِ ازل پر لکھا ہے، ہم دیکھیں گے۔ اور شاکر میں سوچ رہا تھا کہ فیض صاحب نے جس دن کا ذکر کیا شاید وہ 10 اپریل ہی ہو۔ 10 اپریل کا سورج جو چند ہی گھنٹوں میں طلوع ہونے والا تھا، ایک نئی امید، ایک نئی آرزو، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے وہ دن اب چند گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ پھر تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔ اور جنرل ضیاء کے سر اوپر یہ بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ہم دیکھیں گے۔ وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ میں نے ٹرانسسٹر کو آن کیا۔ بہت عرصے بعد میں نے بی بی سی دوبارہ سننا شروع کیا تھا۔ رات کو 3، 4 بجے کا وقت تھا۔ انگریزی سروس کی خبروں میں بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو چند گھنٹوں میں پاکستان پہنچنے والی ہیں اور اس وقت وہ طیارے میں ہیں۔ بی بی سی کا رپورٹر لاہور سے بتا رہا تھا کہ لاکھوں افراد لاہور میں جمع ہو چکے ہیں کسی بھی شخصیت کے استقبال کے لیے برصغیر کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی جمع نہیں ہوئے۔
(جاری)