کاش اس دہشت گرد کا یہ نام نہ ہوتا۔اس لیے کہ اس نام سے ہم جڑے ہوئے ہیں۔یہ نام ہمارے ہاں صحافت اور علم و ادب میں ایک سے زیادہ شخصیات سے جُڑ کر خاصا معروف ہو چکا ہے۔ بہر حال 22 مارچ 2017 کا دن اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ پر حملے کے حوالے سے۔ اور اس حملہ آور کا نام بھی تاریخ کے پنوں پر لکھا جا چکا۔ خالد مسعود۔ قارئین کی دلچسپی کی خاطر اس حملہ آور کے متعلق کچھ بنیادی اور ذاتی معلومات یہاں رقم کر رہا ہوں۔ پچھلے ہفتے میرا کمپیوٹر خراب تھا اس لیے کافی عرصے بعد میرا کالم جنگ لندن کے صفحات سے غائب تھا۔ ورنہ یہ کالم پچھلے اتوار کو شائع ہوتا۔ خالد مسعود 1964 میں پیدا ہوا، مگر اس کا پیدائشی نام ایڈریان ایلمز رکھا گیا جو بعد میں ایڈریان رسل اجاﺅ میں تبدیل ہوا، اس کی والدہ کا نام جینٹ رسل ایلمز ہے، جو برطانوی گوری ہے۔ جینٹ 17سال کی عمر میں بغیر شادی کے حاملہ ہوئی جس کے نتیجے میں ایڈریان پیدا ہوا۔ دو سال بعد اس کی شادی ایک افریقی مسٹر اجاﺅ سے ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی ایڈریان کا باپ بھی تھا مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بعد میں اجاﺅ کا نام ایڈریان کے نام کے ساتھ جڑا ہوا دکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا۔ شادی کے بعد ننھے ایڈریان کے ساتھ یہ جوڑا وہلزمیں سکونت پزیر ہوا۔وہاں پر سب لوگ سفید فام تھے، سواے چند لوگوں کے۔ کینٹ میں ہی ایڈریان نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔یہ اپنے سکول کا ایک اچھا طالب علم تھا۔ فٹ بال کا ایک اچھا کھلاڑی۔یہاں پر ہی 19سال کی عمر میں اس نے پہلا جرم کیا، کسی کو چاقو گھونپ کر۔ جس کی وجہ سے یہ متشدد مشہور ہوا۔ایک آدھ سال یہ جیل میں رہا،واپس آ کر 1995 سے1997 تک اس نے اسکس یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔ اکنامکس اور اکنامکس کی تاریخ اس کے مضامین تھے۔ یہاں سے ہی یہ ایک گوری لڑکی کی زلف کا اسیر ہوا۔ جس کے ساتھ بعد میں شادی ہوئی۔ یہ ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والی تاجر خاتون تھی۔اس نے کاروبار میں بھی اس کی مدد کی۔ اس عورت سے اس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔اسی دوران اس نے انگلش ٹیچر کا کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد2003 میں اس سے دوسرا بڑا جُرم سرزد ہوا۔ اپنے ایک جاننے والے اور کسی حد تک دوست مسٹر گیری سمتھ کے ساتھ اس کا جھگڑا ہوا۔ اس نے گیری کے سر پر چاقو کا وار کیا۔ چاقو مضروب کے سر کی ہڈی اور زبان کاٹتا ہوا جبڑے میں جا گھسا۔ لیکن مضروب کی جان بچا لی گئی۔ ایڈریان اس جرم کی پاداش میں جیل چلا گیا۔ وہاں ہی اس کی کایا پلٹی مسلمان ہو اور اپنا نام خالد مسعود رکھا۔ عدالت میں سوچے سمجھے اقدام قتل کا مقدمہ ثابت نہ ہو سکا۔ صرف چھ ماہ جیل میں گزار کر یہ رہا ہوا۔ اس کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ اس نے ایک بڑے جرم کی بہت معمولی سزا ملنے اور جلد رہا ہونے کو تائید غیبی خیال کیا۔پارلیمنٹ پر حملے اور اس کے نتیجے میں اس کی ہلاکت کے بعد میڈیا نے گیری سمتھ کو ڈھونڈا اور انٹرویو پر آمادہ کیا۔ گیری نے سن اخبار کو یہ انٹرویو 17000پونڈ وصول کرنے کے بعد دیا۔ اس انٹرویو میں اس نے بتایا کہ مجھے اس کے گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا، وہاں میں نے بہت سارے چاقو دیکھے، یہ ہر وقت چاقوؤں سے کھیلتا رہتا تھا۔گیری کے ساتھ لڑائی سے پہلے اس کی بیوی جو ایک گوری میم تھی اس سے الگ ہو چکی تھی۔2004 میں اس کی دوسری شادی ایک پاکستانی نژاد خاتون فرزانہ سے ہوئی۔فرزانہ، مشتاق ملک کی بیٹی ہے اس خاندان کا آبائی تعلق جہلم سے ہے۔مشتاق ملک لندن میں مقیم ہیں میڈیا کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ میں فرزانہ کی ماں کو پچیس سال پہلے طلاق دے چکا ہوں اس لیے کچھ بتانے سے قاصر ہوں۔ میڈیا نے فرزانہ کے ننھیالی خاندان کو کھوج نکالا۔ اس کے ایک ماموں نے بتایا کہ مجھے شادی والے دن دعوتی کارڈ ملا میں نے رسمی شرکت کی کھانا کھایا سلامی دی اور دولہا سے ملے بغیر واپس چلا آیا۔ دوسرے ماموں نے بتایا کہ میں شادی میں شریک ہی نہیں ہوا۔ خاندان ایک افریقی کالے کے ساتھ شادی پر خوش نہیں تھا۔ البتہ شادی میں شریک ہونے والے مامے نے بتایا کہ فرزانہ شادی سے پہلے ہی مذہب کی طرف بہت زیادہ راغب ہو چکی تھی، اس نے اپنی وضع قطع بھی مذہبی بنا لی تھی، تواتر سے مسجد جاتی اور بچوں کو مذہبی تعلیم بھی دیتی رہی۔ اس کے خیالات و نظریات میں بھی انتہا پسندی کی جھلک نمایاں تھی۔ غالباً یہی قدر مشترک تھی جو دو مختلف القوم انسانوں کو قریب لائی۔لیکن یہ شادی صرف چند ماہ ہی چلی۔ فرزانہ کا کہنا ہے کہ خالد ایک شدت پسند مذہبی انسان تھا۔ وہ لباس اور خوراک کے معاملے میں بہت حساس تھا۔ اکثر مجھ پر ہاتھ اٹھاتا۔ ایسے ہی ایک جھگڑے کے بعد میں اس کو چھوڑ کر چلی آئی اور بعد میں طلاق لی۔ اب وہ ایک نو مسلم انگریزکے ساتھ دوسری شادی کر کے جنوبی انگلستان میں مقیم ہے۔ خالد بعد میں 2005 میں انگلش ٹیچر کی حیثیت سے سعودی عرب چلا گیا۔ یہ وہاں آتا جاتا رہا دو سال مستقل مقیم رہا اور 2009 میں واپس آ گیا۔ اس نے برطانیہ واپس آ کر لوٹن شہر میں سکونت اختیار کی، اور مسلمانوں کے ایک سخت گیر مسلک کے سنٹر سے وابستہ ہو کر ان کے ایک ذیلی ادارے میں انگریزی پڑھاتا رہا۔ اس مسجد کے امام نے بتایا کہ یہاں سے ہی اس کا رابطہ المہاجرون تنظیم کے لوگوں سے ہوا، اس نے ان کا لٹریچر بھی لیا۔ لیکن میں نے اس کے طور طریقے میں کوئی خاص تبدیلی نوٹ نہیں کی ، وہ ایک اچھا مسلمان تھا۔یہاں ہی اس کی گیمبیا کی ایک عورت روح حیدارے سے تیسری شادی ہوئی۔ یہاں ہی اس کی پہلی بیوی سے بڑی بیٹی اینڈی اسے آ کر ملی اور باپ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی۔ روح حیدارے کے ساتھ اس نے لوٹن کو خیر آباد کہہ کر لندن میں سکونت اختیار کی۔ اس تیسری کے ساتھ بھی اس کا نباہ نہ ہو سکا اور یہ بندھن بھی ٹوٹ گیا تھا۔بعد میں اس نے برمنگھم میں انگلش ٹیوشن سنٹر کھولا۔ اس کی بڑی بیٹی کی شادی بھی برمنگھم کے اسی مکتب فکر کے ایک نوجوان کے ساتھ ہوئی۔ لیکن اس کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی۔ دسمبر سے یہ منظر سے غائب تھا۔اس نے ہدف کی پہلے باقاعدہ ریکی کی بعد میں حملہ کیا۔ دو مرتبہ گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا کر لوگوں کو کچلا پھر گاڑی مین جنگلے کے ساتھ ٹکرا کر نیچے اترا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں چاقو تھے۔ اس نے غیر مسلح پولیس افسر پر حملہ کیا ، لوگ خوفزدہ ہو کر بھاگے یہ دوسرے غیر مسلح افسر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ وہاں موجود وزیر دفاع مائکل فیلن کے باڈی گارڈ نے اس پر گولی چلائی۔ اس سارے عمل میں ایک منٹ اور بائیس سیکنڈ کا وقت صرف ہوا۔ کل 82 سیکنڈ۔ اس کی کچھ سانسیں ابھی باقی تھیں ، اس نے آخری بار دیکھا کہ جن پر وہ حملہ آور ہوا تھا وہی اس کی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
فیس بک کمینٹ