ہر دو چار ماہ کے بعد میں اپنے قلیل قارئین کے صبر کا امتحان لیتا ہوں اور مختصر تذکرہ کرتا ہوں اُن کتابوں کا جو اس دوران میرے زیر مطالعہ رہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ بہت کم لوگوں کو ایسی کتابوں سے دلچسپی ہوتی ہے لیکن یہی کم لوگ فرمائش کرتے رہتے ہیں کہ آخر اقلیت کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ہمیں بھی اپنے مطالعے میں شریک کر لیجئے۔۔۔چونکہ مجھے صرف نثر کی کچھ سوجھ بوجھ ہے اس لئے زیادہ تذکرہ نثر کی کتابوں کا ہوتا ہے۔۔۔ اور ہاں صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ایک مصنف کا قول بیان کیا تھا جو شاعری اور نثر کے موازنے کی کیا ہی عمدہ مثال ہے۔۔۔ کہا گیا کہ صدارتی مہم شاعری ہوتی ہے ا ور جب وہ امیدوار کامیاب ہو کر صدر بن جاتا ہے تو پھر نثر اُس کے کام آتی ہے۔۔۔ یعنی مہم کے دوران آپ عوام کو خواب دکھلا سکتے ہیں، جھوٹے سچے وعدے کرسکتے ہیں، تقریر کے دوران آپ مؤثر لفاظی کے استعمال سے ہجوم سے داد لے سکتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، جب کہ صدر کے عہدے پر فائز ہو کر آپ شاعری نہیں کر سکتے، آپ کو حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کمر توڑ مشقت کرنی پڑتی ہے، سوچ بچار کے بعد کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نثر لکھتے ہیں۔ میری پسند کی کتابوں میں اس بار بنگلہ دیشی ناول نگار تمیم کا ناول ’’بونز آف گریس‘‘ ہے ، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ محبت کے جنون اور سکون، وحشت اور امن، دیوانگی اور شعور کو صرف ایک مشرقی ناول نگار ہی بیان کر سکتا ہے۔ ایک اور بنگالی ناول نگار امیتابھ گھوش بھی میرا پسندیدہ ہے، اُس پر بھی محبت کے جذبات کی ترجمانی اور کہانی کی بنت ختم ہے، اُس سے کم نہیں۔۔۔محبت کی اس گندھی ہوئی کہانی میں جس طور بنگلہ دیش میں ’’شِپ بریکنگ‘‘ یعنی ناکارہ ہو چکے سمندری جہازوں کے ڈھانچوں کو توڑ کر اُنہیں بازار میں فروخت کرنے کی صنعت کی دردناک تفصیل درج ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔۔۔اس ناول سے پیشتر اس نوجوان خاتون کا ناول ’’دے گُڈ مسلم‘‘میں پڑھ چکا تھا اور مجھے زندگی کے بارے میں اُس کا مثبت نقطۂ نظر پسند آیا کہ وہ اپنی ’’جنگ آزادی‘‘ کا پُر فخر تذکرہ تو کرتی ہے لیکن اُس کے اندر پاکستان کے حوالے سے زیادہ کڑواہٹ نہیں ہے، بلکہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد بہاریوں اور پاکستان کے حامیوں پر مُکتی باہنی نے جو مظالم ڈھائے اُنہیں تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔۔۔ البتہ وہ اُن لوگوں کو معاف نہیں کر سکتی جنہوں نے بنگالیوں کو مذہب اور قومیت کے نام پر قتل کیا اور وہ آج کے بنگلہ دیش میں ایک متمول زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ان جنگلی مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔۔۔ اور اس کے باوجود اُس پر کسی حد تک پاکستان سے ہمدردی کا الزام لگایا جاتا ہے، ’’بونز آف گریس‘‘ اس برس میرا سب سے فیورٹ ناول ثابت ہوا۔ اس دوران میں نے ’’اَل کیمسٹ‘‘ سے شہرت پانے والے پالو کولہو کے دو ناول ’’ایڈلٹری‘‘ اور ’’مینوسکرپٹ فاؤنڈ اِن عکرہ‘‘بھی پڑھے۔ ’’ایڈلٹری‘‘ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ شادی سے باہر کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کا ایک قصّہ ہے۔ ایک عورت کی زندگی میں کچھ کمی نہیں، محبت کرنے والا امیر خاوند۔۔۔معاشرے میں عزت و احترام لیکن پھر بھی وہ ناآسودہ ہے اور کوشش کر کے ایک سیاست دان سے تعلقات قائم کرلیتی ہے جنہیں عرف عام میں ناجائز کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی بودا اور معمولی ناول ہے، اس موضوع پر شاید میں اس سے بہتر ناول لکھ سکتا تھا۔۔۔دوسرا ناول ایک قدیم مخطوطے کی حکمت بھری باتوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ پُرانے زمانوں کے بیت المقدس میں ’’کرپٹ‘‘ نامی ایک بوڑھے کے گرد مختلف مذاہب کے لوگ جمع ہیں اور وہ اُس سے سوال پوچھتے ہیں کہ آخر وفاداری اور تنہائی کیا ہے۔۔۔ خوف، محبت، جنس، خوبصورتی، دل کٹی اور بہادری کیا ہیں اور وہ بابا جی ان سب کی توجیہہ اور تشریح کرتے ہیں ایسی زبان میں جو زریں اقوال کی صورت اختیار کرتی ہے۔۔۔ پالو کولہو کا یہ ناول بھی مجھے متاثر کرنے میں ناکام رہا۔۔۔کولہو ’’ال کیمسٹ‘‘کے بعد مذہب، تصوف اور لفاظی کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ میں کہیں عرض کر چکا ہوں کہ ’’ال کیمسٹ‘‘یقینی طور پر فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘ سے متاثر ہو کر لکھا گیا لیکن ازاں بعد وہ مذہب کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر تقریباً ناکارہ ہو گیا۔ نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اُرہان پاموک سے جب پوچھا گیا کہ وہ کن ناول نگاروں سے متاثر ہوا تو اُن میں ترک مصنف احمد حمدی تانپنار سرِفہرست تھا۔۔۔ تانپنار 19-1-1926 ، شاعر اور افسانہ نگار، نقاد اور مضمون نگار، عثمانی ثقافت اور یورپی ادبی روایت کا نمائندہ ناول نگار۔۔۔میں نے ان دنوں اپنے آپ کو اُس کے ناول ’’دے ٹائم ریگولیشن انسٹیٹیوٹ‘‘ کے لئے وقف کیا کہ وہ اتنی گھنی اور مسلسل شاندار نثر لکھتا ہے کہ اُسے پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا پڑتا ہے۔ اُس کے ناول کا صرف ایک حوالہ ’’عصر کی نماز کے بعد جب اُسے قبر میں اتارا جا رہا تھا، میری پھوپھی اُٹھ کھڑی ہوئی‘‘ اور پھر ایک بگھّی پر سوار ہو کر اپنے شاہانہ گھر کو لوٹ گئی۔۔۔ اس ناول کو پڑھنے کے لئے بہت سارا صبر اور ہمت چاہیے لیکن اسے پڑھے بغیر آپ ترک ناول نگاری کی روح سے شناسا نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسین دلی یونیورسٹی میں تاریخ کی استاد ہیں، تصوف اُن کا محبوب موضوع ہے اور متعدد کتابوں کی تخلیق کار ہیں۔۔۔ بین الاقوامی پہچان رکھتی ہے لیکن پاکستان میں اُن کی پہچان تب ہوئی جب ہمارے پنجابی کے مہان ادیب فخر زمان سے اُنہوں نے شادی کر لی۔۔۔ اگرچہ یہ شادی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان محبت کا ایک پُل قرار دی گئی لیکن اب کیا کریں کہ ایسے سب پُل مودی صاحب نے مسمار کردیئے۔ ’’پرسپیکٹو‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر فاطمہ حسین کے مضامین کا مجموعہ پڑھنے کے لائق ہے جس میں نہ صرف اُنہوں نے اپنے خاوند کے ناولوں کاتجزیہ کیا ہے بلکہ وارث شاہ، امرتا پریتم اور منیر نیازی کے بارے میں نہایت تحقیقی مضامین تحریر کئے ہیں۔
فیس بک کمینٹ