کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ میں اپنی حیات کے تجربوں میں سے کوئی ایک تجربہ جسے میں بیان کر چکا ہوں،اسے پھر سے اپنے کالم کے سپرد کر دیتا ہوں کہ جنوں میں جتنی بھی گزری اگرچہ بے کار گزری ہے لیکن میں نے وہی بیان کرنا ہے جو کہ مجھ پر گزری۔ میں اپنے نکتہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے نئے قصے نہیں گھڑتا۔ نہ ہی مقدس حوالوں سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس وہی بار بار لکھتا ہوں جو لکھ چکا۔ اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ وہ مکررلکھنے کے لائق اس لئے ہوتا ہے کہ جس موضوع کو میں نے چھیڑنا ہے وہ اس سے منسلک ہوتا ہے۔ مجھے یہاں فلسطینی ناول نگار ابراہیم نصراللہ کے ناول’’غزہ ویڈنگ‘‘ کے حوالے سے ایک پرانا قصہ یاد آ گیا جب مجھے جرمنی کی سرکاری ادبی تنظیم’’لٹریٹر ورکسٹاٹ‘‘ نے میرے ناول ’’راکھ‘‘کی پذیرائی کے لئے برلن میں مدعو کیا۔ تقریب کے اختتام پر مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ چونکہ ’’راکھ‘‘ میں دیوار برلن کے کچھ حوالے تھے اس لئے میں نے اپنی گفتگو کا آغاز تو دیوار برلن سے کیا لیکن میں نے علامتی طور پر دنیا کے ایک اور خطے میں تعمیر شدہ ایک ایسی دیوار کا ذکر کیا جو دیوار برلن سے کہیں بڑھ کر ہولناک تھی۔ طویل اور بلند تھی اور جس نے ایک پورے خطے کے باسیوں کو قید کر رکھا تھا اور دنیا کے ضمیر پر کچھ بوجھ نہ تھا۔ نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی اسے گرانے کی کوئی تحریک۔ کیا وجہ ہے کہ اگر ایک دیوار یورپ میں تعمیر ہو تو وہ جمہوریت اور آزادی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور پوری دنیا اس کی مسماری کا مطالبہ کرتی ہے، یہاں تک کہ سابق امریکی صدر جیک کینیڈی بھی اسے گرانے کا کہتا ہے جب کہ ایک اور دیوار ایک ایسے خطے میں تعمیر کی جاتی ہے جو یورپ نہیں ہے جو آبادیوں اور شہروں کو ایک وسیع عقوبت خانے میں تبدیل کر دیتی ہے تو اس کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ ہر اس دیوار کو ڈھا دینا چاہیے جو خلق خدا کو تقسیم کر تی ہے۔ میں نے محسوس کر لیا کہ حاضرین بہت خاموشی سے بیٹھے ہیں۔ تقریب کے بعد اس ادبی تنظیم کی انچارج خاتون نے شکائت کی کہ تارڑ صاحب آپ نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگرچہ آپ نے نہ تو خطے کا نام لیا ہے اور نہ ہی دیوارتعمیر کرنے والے ملک کی نشاندہی کی ہے لیکن سب جان گئے تھے کہ آپ غزہ کے گرد اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جرمنی میں نہ صرف ہولو کاسٹ بلکہ اسرائیل کے کسی بھی عمل پر نکتہ چینی کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ کی تقریر کی اگر رپورٹنگ ہو گئی تو ہمارے علاوہ آپ بھی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ بعدازاں میری تقریر کے حوالے سے تنظیم کی انچارج پر کوئی عتاب آیا یا نہیں۔ بہرحال میں وطن لوٹ آیا۔ یہ قصہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ابراہیم نصراللہ کا ناول’’غزہ ویڈنگ‘‘ پڑھتے ہوئے یاد آ گیا کہ اس میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار کے اندر محصور غزہ کے فلسطینیوں کی روز مرہ زندگی بیان کی گئی ہے۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے کہیں بھی آہ وزاری نہیں کی۔ دیوار کے اندر قید عام لوگوں کی حالت زار پر آنسو نہیں بہائے گئے۔ اپنے آپ پر ترس نہیں کھایا گیا۔ بلکہ جذباتیت اور طیش کے بغیر ان محصور لوگوں کے روز مرہ کے معمولات کو سادہ پیرائے میں بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی سادگی ہی جان لیوا ہے۔ مجھے بار بار اپنی آنکھوں میں سے پھوٹنے والی نمی کو پونچھنا پڑا۔ مثلاً ایک شادی کی تیاری ہو رہی ہے۔ گیت گائے جا رہے ہیں اور دولہن کی والدہ شادی کا جوڑا خریدنے کے لئے جانے لگتی ہے تو ایک عورت کہتی ہے’’شادی تو پرسوں ہے‘ تم آج ہی دلہن کا لباس خرید لاؤ اور کل خبر آ جائے کہ لڑکے کو اسرائیلیوں نے ایک نہتے احتجاج کے دوران مار ڈالا ہے تو شادی کا لباس تو ضائع گیا۔ یاد نہیں مرتضیٰ کی شادی کے دن خبر آ گئی تھی کہ وہ تو چیک پوائنٹ پر شہید ہو گیا ہے تو اس کی دلہن کا جوڑا ضائع ہو گیا تھا۔ اس طرح کی فضول خرچی نہ کرو۔ پرسوں کا انتظار کرو۔‘‘ ایک چیک پوائنٹ پر بم کا دھماکہ ہوتا ہے جس میں ایک فلسطینی شہید ہو جاتا ہے وہ اس بری طرح مسخ ہو جاتا ہے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جن خاندانوں کے مرد لاپتہ ہیں وہ ہسپتال کے مردہ خانے میں آ کر لاش کی شناخت کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی انگلیاں بچے کھچے لباس وغیرہ سے اندازے لگاتے ہیں۔ ایک عورت مردہ خانے کے انچارج سے کہتی ہے کہ میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ تو وہ پوچھتا ہے کیا آپ اس کی رشتہ دار ہیں؟ تو وہ کہتی ہے ‘ وہ میرا خاوند ہے۔ انچارج کہتا ہے کہ صبح سے کم از کم بیس عورتیں آ چکی ہیں جنہوں نے اس کی مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ تو ہمارا خاوند ہے۔ ایک اور نوجوان لڑکی کو یقین ہے کہ وہ اس کا گمشدہ بھائی ہے۔ وہ سوتے ہوئے ایسا ہی لگتا تھا۔ اگرچہ اس کا چہرہ نہیں ہے لیکن جیسے وہ سٹریچر پر پڑا ہے وہ ایسے ہی لیٹا کرتا تھا۔ کم از کم دو بچے ’’بابا‘ بابا‘‘کہتے اس سے لپٹ جاتے ہیں۔ ایک ماں بین کرنے لگتی ہے کہ یہ ہر صورت میرا بیٹا ہے اس کی لاش لینے آئی ہوں۔ اسے خود اپنے ہاتھوں سے دفن کروں گی۔ بالآخر اس ناقابل شناخت لاش کو مقامی قبرستان میں دفن کر دیا جاتا ہے اور جنازے میں وہ تمام مرد و زن شریک ہوتے ہیں جو اسے اپنا بیٹا‘ بھائی یا خاوند سمجھتے ہیں۔ اس کی قبر پر روزانہ وہ سب اکھٹے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان لڑکی قبر پر آتی ہے اور کہتی ہے کہ میرا بھائی واپس آ گیا ہے۔ وہ شہید نہیں ہوا زندہ ہے۔ لیکن میں اس کی قبر پر اب بھی روزانہ آیا کروں گی کہ اس میں میرا بھائی ہی دفن ہے۔ اس ناول میں غزہ میں محصورلوگوں کے بارے میں شگفتہ قصے بھی ہیں۔ اس میں ہنسی مذاق بھی ہے۔ ایک بوڑھی عورت ایک بیکری والے سے جھگڑ رہی ہے کہ میں نے پچھلے ہفتے تم سے جو کیک خریدا تھا اسے کھا کر میں سو گئی اور دھماکوں کے باوجود صبح دیر تک سوتی رہی۔ وہ اتنا ذائقہ دار تھا اور جو کیک میں کل لے کر گئی اسے کھا کر سوئی ہوں تو ساری رات مجھے اسرائیلی راکٹوں کے دھماکوں نے سونے نہ دیا۔ ضرور تمہارے کیک میں کچھ خرابی تھی۔ بے ایمانی کرتے ہو۔ غزہ کے بچوں کے ہسپتال کے ایک وارڈ میں بچے داخل ہیں ،کچھ کی آنکھیں ضائع ہو چکی ہیں۔ چند ایک ایسے ہیں جن کی صرف ایک آنکھ محفوظ ہے۔ کوئی یورپی تنظیم جو بچوں کی فلاح کیلئے کام کرتی ہے ان بچوں کے لئے کانچ سے بنے ہوئے ڈیلے بھیجتی ہے تاکہ انہیں ضائع شدہ آنکھ کے گڑھے میں موزوں کر دیا جائے۔ مختلف رنگوں کی یہ ’’آنکھیں‘‘ گتے کے ایک ڈبے میں پیک شدہ ہیں اور ڈاکٹر کی آمد سے پیشتر یہ بچے اس ڈبے کو کھول کر ان مصنوعی آنکھوں کو نکال کر ان سے کھیلنے لگتے ہیں جیسے بنٹوں سے کھیلتے ہیں۔ جب ڈاکٹر آتا ہے تو ہر بچہ اپنی پسند کے رنگ کی آنکھ لگوانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر انہیں لاکھ سمجھاتا ہے کہ دیکھو تمہاری جو محفوظ آنکھ ہے اس کے رنگ سے میچ کر کے دوسری آنکھ لگائی جائے گی لیکن بچے نہیں مانتے۔ ضد کرنے لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مجبور ہو کر عارضی طور پر ان کی پسند کی آنکھیں لگا دیتا ہے اور اب ہر بچے کی محفوظ آنکھ اور کانچ کی آنکھ کے رنگ میں فرق ہے لیکن بچے خوش ہیں۔ ناول کا یہ حصہ پڑھ کر دل کٹ جاتا ہے اور رونے کو جی چاہتا ہے کہ بے بس اور کم ہمت لوگ رو ہی سکتے ہیں۔ کسی دیوار کو مسمار نہیں کر سکتا۔ بقول میاں محمد بخش۔ کمزور شخص کا اور کیا کام ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ روئے گا یا پھر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ جائے گا۔ ہم لوگ انہی بھگوڑوں میں شامل ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ