:علامہ اقبال
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آ بگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذَرہ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و با یزید تیرا جمال بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب
۔۔۔۔۔
: نجم الاصغر شاہیا
طیبہ کی اُس ریت پہ پھولوں کے مسکن قربان
اُس پہ مری سرسبز زمینوں کے دامن قربان
اُس وادی پہ کاغان اور کالام کا حُسن نثار
اُس پہ مری اور شنگریلا کے سُندر بَن قربان
اُس پہ شجاع آباد کے اور ملتان کے باغ فدا
اُس پہ چَوّا سَیدن شاہ کے سارے چمن قربان
میرے وطن میں دریائوں اور نہروں اور نہروں کا اِک جال
اُس بے آب زمیں پر میرا سارا وطن قربان
اُس مینار کے گُن گائے مینارِ پاکستان
اُس گنبد پر تاج کے معماروں کا فن قربان
اُس روضے کی فیضرسانی دہر میںچاروں اور
اُس پر پورب، پچھّم، اُتَر اور دَکھن قربان
نجم الاصغر آج یہ تُو نے کیسی نعت کہی
تجھ پر ، سعدی و جامی کا اسلوبِ سخن قربان
….
: ایاز صدیقی
(غالب کی زمین میں)
دل کو آئینہ دیکھا، ذہن کو رسا پایا
ہم نے اُن کی مدحت میں زیست کا مزہ پایا
بے وسیلہء احمد زندگی نے کیا پایا
"آہ بے اثر دیکھی ، نالہ نارسا پایا”
جس طرف نظر اٹھی ، آپ ہی نظر آئے
سایہ افگنِ عالم دامنِ عطا پایا
راستے کے پتھر ہوں یا سخن کے نشتر ہوں
آپ کو بہر عالم پیکرِ رضا پایا
کون عرشِ اعظم پر آپ کے سوا پہنچا
کس نے سارے نبیوں میں ایسا مرتبہ پایا
رحمتِ دو عالم سے ہم نے جب کبھی مانگا
ظرف سے سوا مانگا ، مانگ سے سوا پایا
مرحبا ایاز اُن پر لطفِ خالقِ اکبر
تاج کُن فکاں سر پر ، عرش زیرِ پا ، پایا
….
: پروفیسر انور جمال
شبنم کووقتِ صبح کبھی دیکھ پھُول پر
تجھ کو یقیں ہو وحیء خدا کے نزول پر
گر میرے بس میں ھو تو فدا کر دوں کہکشاں
طائف کےرہ نورد کے قدموں کی دھول پر
کچھ ہچکیوں میں ڈھل گئے ، کچھ اشک بن گئے
میری دعا کے حرف مقامِ قبول پر
لا یمکَن الثناءکماکانَ حقَہُ
پرکھا ھے آگہی نے تجھے ہر اصول پر
پرواز وہ جو گنبدِ خضریٰ کے گِرد ھو
ہیں طائرِ خیال کے ورنہ فضول پَر
نام آوری کی جس کو تمنا ھے دہر میں
بھیجے درودِ پاک خدا کے رسول ﷺ پر
۔۔۔۔
: نوازش علی ندیم
اے شعور و آگہی کے قبلہ اول کرم
دین و دنیا کا توازن مسئلہ ہے ، حل کرم
میری بینائی ، سماعت ، نطق اس کی زد میںہیں
مجھ کو نگلے جا رہی ہے کفر کی دلدل ، کرم
مجھ میںاک تپتے ہوئے صحرا نے مسکن کر لیا
کملی والے بھیج دے کوئی گھنا بادل ، کرم
مجھ کو اپنی معرفت دیجیئے مرے یزداںصفات
فکر کے پائوں بھی اب ہونے لگے ہیںشل ، کرم
ریت اُڑتی ہے مرے اندر نوازش کیجئے
شہرِ جاں بھی آپ کی رحمت سے ہو جل تھل کرم
۔۔۔۔
:افضل خان
یہ جو اس دل کو جنوں میں بھی سکوں ہے، یوں ہے
ذ ہن پر اسم محمد ﷺ کا فسوں ہے یوں ہے
دل کے جذبات الگ، عقل کی اوقات الگ
عشق کی راہ مگر یوں ہے نہ یوں ہے، یوں ہے
میں مدینے سے پلٹنا ہی نہیں چاہتا تھا
”تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے، یوں ہے”
سیرت.پاک ہی دراصل ہے قانونِ حیات
ورنہ فتوے تو ہزاروں ہیں کہ یوں ہے یوں ہے
دل دھڑکتا ہے محمد ﷺ کی زیارت کے لیے
میرے اعضا میں اگر گردشِ خوں ہے، یوں ہے
منکشف مجھ پہ ہو معراجِ نبی ﷺ کی منطق
میں بھی ہر پوچھنے والے سے کہوں ”یوں ہے.، یوں ہے”
….
: ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
مَیں مدینے جو پہنچی تو دل میں مرے روشنی ہو گئی
روح مردہ تھی لیکن مجھے یوں لگا زندگی ہو گئی
پھر سحابِ کرم سے خزاؤں میں بھی پھول کھلنے لگے
دیکھ کر سبز گنبد بہاروں سے بس دوستی ہو گئی
ہے مرے واسطے تو یہ روشن مدینہ ہی روشن جہاں
چاند یثرب سے اُبھراتو چاروں طرف چاندنی ہو گئی
آپ علم و محبت کا پیغام لے کر جو آئے تو پھر
بس وہ ظلمت جہالت جہاں میں بہت اجنبی ہو گئی
میرا ماتھا چمکنے لگے گا مَیں خود بھی نکھر جاؤں گی
دھول شہرِ نبی کی جبیں پر اگر دائمی ہو گئی
تھی جو اک کیفیت رنج اور درد کی کب سے گھیرے ہوئے
مجھ پر اُن کے کرم کی نظر جو پڑی وہ خوشی ہو گئی
آپ کی شان کے لفظ ملتے نہ تھے میں پریشان تھی
آپ نے لفظ بھیجے تو آقا مری نعت بھی ہو گئی
۔۔۔۔
: قیصر عمران مگسی
نُور ایسا جہاں میں آیا ہے
سارا عالم ہی جگمگایا ہے
رب نے قرآن میں جو فرمایا
سب نے تیری زباں سے پایا ہے
وہ جو مخفی تها کُن کے پردے میں
تیرے آنے سے جگمگایا ہے
وجہِ تخلیق_کائنات ہے تُو
تیری خاطر جہاں بنایا ہے
یہ جو باقی ہے کلمہ ءتوحید
یہ ترے خون نے بچایا ہے
لے کے آدم سے ابن_مریم تک
ہر نبی آپ کی رعایا ہے
رحمت العالمینﷺکا قیصر
مستقل دو جہاں پہ سایہ ہے
۔۔۔۔