ملتان کی انتظامیہ خاص طور پر کمشنر ملتان شہریوں کو ریلیف دینے کے لئے کافی متحرک نظر آرہے ہیں ۔ وہ کمشنر کے علاوہ چونکہ میونسپل کارپوریشن کے ایڈ منسٹریٹر بھی ہیں اس لئے وہ شہر کے مسائل کے حل کے لئے خاصے پرجوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہم سادہ لوح ملتانی بس جوش و خروش کو دیکھ کرہی مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ اس جوش و خروش اور بھاگ دوڑ کا کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے یا نہیں اس سے ہمیں کوئی غرض ہی نہیں ہوتی ۔
لیکن ملتانی عوام کو اس کے باوجود یہ تو معلوم ہے ہے کہ کارپوریشن کا عملہ کبھی بھی انہیں ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔۔ تجاوزات، وال چاکنگ، بھینسوں کے بھانےاور ایسے ہی دیگر معاملات کارپوریشن کے عملہ کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں ۔ اب بھلا عملہ کب چاہے گا کہ یہ مسائل حل ہوجائیں یعنی ان کی آمدن کے ذرائع ہی باقی نہ رہیں ۔ رادھا کے ناچنے ( ملا زمین اور افسروں کے کھانے پینے ) کے لئے جس نو من تیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہی مسائل سےتو حاصل ہوتا ہے ۔
اب اگر ملتان میں صرف صاف پانی کی فراہمی کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ شہر کے بیشتر پلانٹس خراب یا ناکارہ ہیں ۔۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور گزشتہ روز ملتان آئے تو انہوں نے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے وعدے کا اعادہ کیا۔ ملتان انتظامیہ کی جانب سے گورنر صاحب کو بتایا گیا کہ شہر میں اس وقت 371 واٹر پیوریفیکیشن پلانٹس فعال ہیں۔ ملتان آب کمیٹی کی اس رپورٹ پر گورنر پنجاب نے ان کی کاکردگی کو خوب سراہااور ان کی بھر پور تعریف کی ۔ سچ پوچھیں تو پانی کے معاملے میں انتظامیہ کی رپورٹ پر گورنر صاحب کےصدق دل سے یقین کر لینے پر ہمیں ان کے لئے ” پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی وہ بات “ والامصرع یاد آگیا ۔ انتظامیہ کے لئے چلو بھر پانی والا محاورہ بھی استعمال ہوسکتا تھا لیکن وہ زیادہ سخت بات ہو جاتی ۔
کاش گورنر صاحب سرکٹ ہاؤ س کے قریب ہی واقع پیپسی والوں کے پیوریفیکیشن پلانٹ پر لوگوں کا ہجوم دیکھ لیتے اور انتظامیہ سے سوال کرتے کہ اگر اتنے بہت سے واٹر پلانٹفعال ہیں تو سارے شہر کے پیاسے اس ایک پلانٹ پر کیوںجمع ہیں؟ اور سب لوگ یہاں سے ہی کیوں پانی بھر رہے ہیں ؟ لیکن گورنر کو یہ کیسے علم ہوتا اس سڑک پر تو پیاسوں کے ہجوم کی وجہ سے اکثر ٹریفک ہی بلاک رہتی ۔ وی آئی پی آمدورفت تو اس سڑک سے ممکن ہی نہیں ۔۔
ملتان کے حقیقی مسائل تو ٹریفک کے اشاروں کی تنصیب ، سیف سٹی کیمرہ پراجیکٹ سیور یج اور واٹر پیوریفیکیشن پلانٹس کا فعال نہ ہونا ہے ۔ وال چاکنگ اور تجاوزات کے نام پرتو تمام کارر وائیاں فرضی ہو رہی ہیں ۔ جب تک کارپوریشن کے اہلکار ملوث رہیں گے ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی۔ معاملات جوں کے توں رہیں گے ، کمشنر سے گورنرتک سب اچھا ہے کی رپورٹ جاتی رہے گی