بات مجھے سندھ میں رونما ہونے والے اس حادثے کی کرنی ہے جس نے میری روح تک ہلا دی ہے کہ ایسا المیہ آج تک کم از کم میں نے تو دیکھا نہ سنا ۔ لیکن پہلے دارالحکومت کی بات ۔کہ اسلام آباد بڑا شہر جو ہے ۔ سندھ کی خبر کو تو کسی نے اہمیت بھی نہیں دی ۔ اسلام آباد کی سڑک پر کل ایک کار حادثہ کا شکار ہوئی اور 4 نوجوان جاں بحق ہو گئے ۔۔گویا لمحوں میں 4 ماؤ ں کی گود اجڑ گئی ، وجہ تیز رفتاری تھی۔ اب آپ اسلام آباد میں جتنے مرضی قوانین لاگو کردیں سزاؤ ں کا معیار انٹرنیشل بنادیں جب تک لوگ خاص طور پر نوجوان ڈرائیونگ میں احتیاط نہیں کریں گے ایسا ہوتا رہے گا ۔ تین نوجوان تو بے موت مارے گئے جو ڈرائیونگ کر رہا تھا اس سے بھی بے احتیاتی اور غلطی لازمی ہوئی ہوگی۔ ہم مرنے والوں کو برا نہیں کہہ سکتے اس لئے ہمیں قصور وار پر بھی مٹی ہی ڈالنا ہوگی۔
کل ہی سندھ کے شہر میر پور خاص کے قریب ایسا المناک حادثہ ہوا کہ دل کانپ گیا ۔۔ دو سالہ بچی کی لاش موٹر سائیکل پر لے جانے والے اس کے والد اور چچا بھی ٹریفک حادثہ کا شکار ہو کر لاشوں میں تبدیل ہو گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچی کو کھپرو سے علاج کے لئے لائے تھے ۔ ہسپتال میں اس کا انتقال ہو گیا ۔ میت گھر لے جانے کے لئے ایمبولینس کی ضرورت تھی ۔ ہسپتال والوں نے ایمبولینس کا کرایہ دو ہزار روپے طلب کیا ۔ ان غریبوں کے پاس دو ہزار روپے ہوتے تو کیا وہ اپنی بچی کو مفت علاج کے لئے سرکاری ہسپتال لاتے ۔سو غم سے نڈھال دونوں بھائیوں نے بچی کی لاش گود میں لی اور گھرکی جانب بلکہ عدم کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔
اس حادثے کے بعد کچرے کی سیاست کرنے والی سندھ حکومت کی تحقیقاتی کمیٹیوں نے کام شروع کردیا وہ اس پہلو پر کا م کر رہی ہیں کہ لاش ایمبولینس میں جانی تھی موٹر سائیکل پر کیوں لے جا رہے تھے ؟ کیا یہ ہسپتال کی غفلت تھی وغیرہ وغیرہ؟
انہیں جس گاڑی نے ٹکر ماری وہ بھی تیز رفتار تھی دکھ کی کیفیت میں غم سے دوچار موٹر سائیکل سوار بھی ڈگمگا گیا ہوگا۔۔ المیہ یہ ہے کہ ہم حادثات سے سبق نہیں سیکھ رہے آواز نہیں اٹھا رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 1122 ریسکیو کے اعداد و شمار کے مطابق ٹریفک حاد ثات میں روزانہ صرف پنجاب میں 12 افراد جاں بحق ہورہے ہیں اور افسوس کہ کسی ایک ڈرائیور کو بھی سزا نہیں ملی ۔