ریلوے کا سفر محفوظ ترین سمجھا جاتا تھا مگر گزشتہ ایک سال کے دوران یہ سفر بھی جان لیوا اور مہنگا ترین ہو گیا ہے۔۔۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں ٹرانسپورٹ ایک اہم ذریعہ ہوتا ہے۔۔مگر ہمارے ملک میں بھارت اور چائنا کے بعد وسیع ریلوے ٹریک ہونے کے باوجود آئے روز ریلوے کے کرایوں میں اضافے کا سامنا ہے۔۔اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں قیمتی جانوں کے ضیاع کا خطرہ بھی لاحق ہے۔۔ویسے تو ریلوے کا قلمدان انتہائی سینیئر سیاستدان شیخ رشید کے پاس ہے۔۔جن کی شہرت سیاسی پامسٹ کے حوالے سے بھی ہے۔۔جن کو یہ علم ہوتا ہے کہ فلاں حکومت کب جائیگی۔۔کون سی سیاسی شخصیت کب کس پارٹی میں شمولیت اختیار کریگی۔۔مگر انہیں نہ تو ٹریفک سگنلز کا علم ہے اور نہ ہی ان کی مستقبل بینی ریلوے حادثات کے بارے میں انہیں بتاتی ہے۔۔اس کی وجہ شاید اس وزارت سے ان کی عدم دلچسپی ہو۔۔یا صرف وہ نئے پاکستان میں عمران خان صاحب کے ساتھ کام کرنے کی خواہش دل میں لئیے جی رہے ہیں ۔۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کے پاس صرف ایک ہی سیٹ ہے۔۔اور وہ بھی انکی اپنی۔ایک وقت تھا پاکستان تحریک انصاف کی جماعت سے بھی صرف عمران خان صاحب ہی منتخب ہوتے تھے۔۔اور اب شیخ رشید صاحب بھی اپنی پارٹی سے تن تنہا منتخب ہوتے ہیں۔۔کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی ٹی وی چینل کی ٹیسٹ ٹرانسمیشن کی طرح یہ نیا پاکستان ہو۔۔اور اصل ٹرانسمیشن میں شیخ رشید صاحب کی پارٹی نظر آئے۔۔خیر انسانی اور عوامی توقعات تو پرامن پاکستان اور ملک میں موجود ہر ادارے سے بہتری سمیت میرٹ پر فیصلوں کی ہی ہیں۔۔ایسے میں اگر ریلوے نظام میں بہتری کے ذ ریعے ریلوے کے سفر کو ایک بار پھر محفوظ کر دیا جائے تو عوام خوشگوار سفر سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔۔۔
لیکن یہ بھی ابھی ممکن نظر نہیں آتا ۔ کسی بھی بہتری کے لئے با ضمیر ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ یہ ضمیر نام کی ایک چیز ہے جو آپ کو ہمہ وقت بیدار اور متحرک رکھتی ہے ۔ بے گناہ افراد کی موت ضمیر پر بوجھ بن جائے تو پھر بہتری کی امید بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن شیخ رشید صاحب سے جب عمران خان کی پرانی تقریر یاد دلا کر استعفے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے کہا جب میرے ضمیر پر بوجھ ہو گا تو استعفیٰ دے دوں گا ۔۔ ضمیر پر بوجھ کے لئے شیخ رشید صاحب کو مزید کتنی لاشیں درکار ہیں ؟ریلوے میں بہتری کے لئے اس سوال کا جواب حاصل کرنا ضروری ہے ۔۔