روایت ہے کہ تین نابینا افراد کو ایک ہاتھی کے قریب لے جایا گیا اور اُنہیں ہدایت کی گئی کہ ٹٹول کر ہاتھی کو محسوس کریں اور بتائیں کہ ہاتھی کیا ہے ، کیسا ہے اُنہوں نے اپنے ہاتھوں کو بینائی بنایا اور شناخت کا نا معتبر ذریعہ اپنایا ۔ ایک نے ہاتھی کی ٹانگ پکڑ ی اور اُوپر سے نیچے تک اسے اپنے علم میں اُتار لیا دوسرے کے ہاتھ میں سونڈ آئی ، اُس نے سونڈ کے حوالے سے ہاتھی کو پہچانا ، تیسرے کے ہاتھ میں کان آیا اور اس نے بصارت کی کمی کو بصیرت سے پورا کرتے ہوئے ہاتھی کو پہچان لیا ۔ اب انہیں کہا گیا کہ ہاتھی کو بیان کریں ۔ جس نے ٹانگ پکڑی تھی اُس کا کہنا تھا ہاتھی کسی بڑے گھر کے ستون جیسی کوئی شے ہے ۔سونڈ پکڑنے والے کا اصرار تھا ہاتھی پائپ نُما جاندار چیز ہے ۔ کان سے ہاتھی کی شناخت کرنے والا اسے کسی کُھردرے کپڑے سے تعبیر کر رہا تھا ۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انفرادی طور پر ہر نابینا درُست تھا لیکن مجموعی طور پر ہاتھی ان کے بیانات سے مختلف کوئی چیز ہے زندگی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے ہر آدمی اپنے تجربے ،مشاہدے کی رُوسے زندگی کی تعریف متعین کرلیتاہے جبکہ زندگی اس کی بیان کردہ تعریف سے یکسرمختلف بھی ہوسکتی ہے اورمتضاد بھی ۔جب ایک فرد زندگی کی تعریف بیان کرتاہے تو دراصل وہ یہ بتارہاہوتاہے کہ زندگی اس کے ساتھ کس کے ساتھ کیسی رہی اورمجموعی زندگی بھی نہیں عمرکاایک حصہ۔ ہم عمراورزندگی کو مترادف سمجھتے ہیں جبکہ عمرسانسوں کادورانیہ ہے اورزندگی ایک رواں دواں عمل کانام ہے جس کی ابتداء اورانتہا ہمیں نہیں معلوم ۔کسی کے نزدیک محبت زندگی ہے لیکن کیانفرت زندگی نہیں ہے جبکہ وہ تومحبت سے بھی زیادہ شدیداورطاقت و رجذبہ ہے۔زندگی زندہ دلی کانام ہے لیکن کیاہمارے اردگرد ہزاروں لوگ فسردہ دلی بلکہ مردہ دلی سے زندگی نہیں گزاررہے ؟آپ کوئی بھی تعریف وضع کیجئے اس کا متضاد بھی اسی زندگی کاحصہ اورنمائندہ ہے ۔بلکہ خودانسانی وجود اجتماعِ ضدین کہلاتاہے توپھرزندگی کیاہے ؟ زندگی اورموت دوایسے معمے ہیں جنہوں نے انسانی ذہن کوچکراکررکھ دیاہے ۔اقبال نے کہاتھا
فرشتہ موت کاچھُو تاہے گوبدن تیرا
تر ے وجودکے مرکز سے دوررہتاہے
مجھے لگتاہے زندگی بس لمحہ موجودکانام ہے (ظاہرہے یہ میراذاتی خیال ہے کوئی فیصلہ نہیں )ہم میں سے اکثرلوگ ماضی میں زندہ ہیں یامستقبل میں سانس لے رہے ہیں۔یوں ہم ’حال ‘کوضائع کرتے رہتے ہیں ۔ذہنی طورپرماضی میں رہنے سے نہ تو اسے تبدیل کیاجاسکتاہے نہ ہی اس پرپچھتاواکسی تلافی کاسبب بن سکتاہے۔اجدادکادرخشاں ماضی ہمارے حال کی رخشندگی کاباعث نہیں بن سکتا ۔ مستقبل کابھی یہی معاملہ ہے ۔اسے بہترکرنابھی ’حال‘ میں ممکن نہیں ۔آپ کی اورمیری دسترس میں صرف لمحہ موجودہے ’اب ‘یا’ابھی‘میں ہی رہ کرہم زندگی کاحق اداکرسکتے ہیں ۔حال ایک بہت نفیس سرحد ہے جوماضی اورمستقبل کوجدا کرتی ہے اوراس پر ’ہونا‘ہی زندگی ہے۔اگرآپ نے لمحہ موجودسے زندگی کشیدکرلی توآنے والالمحہ اسی سے جڑاہواہے وہ خودبخود زندگی کے احساس سے لبریز ہوگا۔ایک گہراسانس لیجئے اوراسی لمحے کوروشنی ، رنگ، خوشبواوریقین سے لبریزکرلیجئے ۔آپ کرہ ارض پر اللہ کی منفردتخلیق ہیں ۔اس نے آپ جیسا دوسراکوئی نہیں بنایا۔یہی احساس زندگی ہے کہ آپ اس کائنات کے منفردانسان ہیں ۔شکرکیجیئے اوردو سروں کو بھی اس شکرمیں شامل کیجئے ۔
فیس بک کمینٹ