الیاسف نے عہد کیا تھا کہ وہ آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہے اور آدمی ہی کی جون میں مرے گا۔ جب اس کی بستی کے لوگوں نے ایک ایک کر کے بندر بننا شروع کیا تو وہ باقی ماندہ افراد کو اپنے ہمراہ لے کر اس آدمی کے گھر گیا جو انہیں ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے روکتا تھا، لیکن وہ ان کی بستی چھوڑ کر کہیں دور جا چکا تھا۔ اس کی بیوی، اس کے دوست، اس کے سارے ہم جنس بندروں میں تبدیل ہو گئے، لیکن اس نے آدمی کی جون برقرار رکھی کیونکہ وہ ان میں سب سے دانا اور عقل مند تھا ۔۔۔ اور کہانی کا انت یہ ہے کہ الیاسف کو اُس کی دانائی بچا پائی، نہ ہی اُس کی مزاحمت ؛ اُسے بھی اپنے دیگر ہم جنسوں کی طرح آدمی کی جون چھوڑ کر بندر بننا پڑا ۔
۔۔۔
انتظار حسین کا یہ افسانہ اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ ” آخری آدمی ” نامی اس افسانے کی اب تک کئی تعبیرات کی جا چکی ہیں۔ اِس کی ایک تعبیر تو یہ ہے کہ جس سماج میں صحیح اور غلط کی تمیز باقی نہ رہے اور جس کے دانا افراد بھی جاہلوں کے ساتھ مل جائیں، اُسے مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہاں بندر سے مراد بندر ہی ہے ؟ کہیں انسان کا بندر بننا اس کے ڈی ہیومینائز ہونے کی تمثیل تو نہیں ؟ ماحولیاتی تناظر میں دیکھا جائے تو قدرتی ذخائر کا بے دریغ استعمال ایکو سسٹم میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے، جس کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو انسان سمیت تمام انواعِ زندگی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہم نے بھی تو پچھلے دو سو برسوں میں زیادہ سے زیادہ منافع کی حرص میں سمندروں کو آلودہ کیا ہے،جانوروں سے ان کے مسکن چھینے ہیں، درختوں کا گلا گھونٹا ہے، زمین کا چہرہ بگاڑا ہے۔ کہیں یہ تمثیل ہمارے لیے ہی تو نہیں لکھی گئی ؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم سب آہستہ آہستہ ڈی ہیومینائز ہو رہے ہوں یا ہو چکے ہوں، اور ہمیں اِس کا ادراک بھی نہ ہو ؟
ایک ایسی دنیا جس میں محبت نہ ہو، انصاف نہ ہو، آگے بڑھنے کے یکساں مواقع نہ ہوں، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ حقیقی انسانی تعلق بنانے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہو، جس کا نبادات، حیوانات اور موسموں کے ساتھ تعلق منقطع ہو چکا ہو، اس کی اخلاقیات کیسے وضع کی جائیں ؟ ممکن ہے آپ کا خیال ہو طاقتور ہونا سب سے بڑی خوبی ہے اور کمزور ہونا سب سے بڑا جرم ؟ لیکن یاد رہے اکیسویں صدی میں طاقت کا مفہوم بدل چکا ہے۔ اب کسرتی بدن، شمشیر زنی اور گتکا بازی سے بات نہیں بننے والی۔ طاقت ور وہ ہے جس کے پاس میزائلز اور نیوکلیئر ہیتھیاروں کا کنٹرول ہے۔ جو محض ایک بٹن دبا کر کروڑوں افراد کو صفحہ ء ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ سمیری ، یونانی ، نارڈک، منگول اور رومی طاقت کو خوبی سمجھتے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جسمانی طاقت جارحیت کے ساتھ ساتھ دفاع کا وسیلہ بھی تھی۔ حملہ آور چاہے کوئی بپھرا ہوا شیر ہو یا دشمن سپاہی، طاقت زندگی کے تحفظ کی ضمانت تھی، اور زندگی سے بڑی خوبی اور کیا ہو سکتی ہے !
یہ بھی ممکن ہے آپ سائنسی شعور اور ذہانت کو خوبی گردانتے ہوں، لیکن جہاں ہم نے ٹیکنالوجی کے ذریعے زندگی کو سہل اور پر آسائش بنایا ہے، جغرافیائی فاصلوں میں کمی لائی ہے، انسان کی اوسط عمر میں اضافہ کیا ہے، وہاں ہم نے ایسے خوفناک ہتھیار بھی وضع کیے ہیں، جو پلک جھپکنے میں تمام بنی نوع انسان کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ہیرو شیما، ناگاساکی، چرنوبل اور سٹینلے کیوبرک کی شہرہ آفاق فلم ” ڈاکٹر سٹرینج لوو : ہاو آئی سٹوپڈ ورینگ اینڈ لوونگ بومبس“میں اس ہولناک تباہی کی چند جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں، جو کبھی بھی کسی غلطی، شرارت یا سازش کے نتیجے میں ہم سب کا مقدر بن سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ یہ جیون سدھار طاقتوں کے بجائے جیون بگاڑ قوتوں کی رکھیل بن گئی، یہی وجہ ہے ٹیسلا ناکام و نامراد ہوا اور ایڈیسن کی چاندی لگ گئی۔ یہ سچ ہے کہ سائنسی شعور اور انسانی ذہانت کو اس عہد کی سب بڑی خوبی بنایا جا سکتا تھا، لیکن سرمایہ داری اور مقتدر طبقوں نے اِسے منافع خوری اور پست سیاسی مقاصد کے حصول کا آلہء کار بنا کر حیات کی تمام معلوم اقسام کے لیے باعثِ آزار بنا ڈالا۔ ہالی وڈ کی ایک معروف فلم ” ساوئلنٹ گرین ” کے آخری سین میں مرکزی کردار، جو ایک پولیس ڈیٹیکٹو ہے اور ایک ملٹی بلین خوراک ساز ادارے کے متعلق تحقیقات کر رہا ہے، یہ جان کر گنگ رہ جاتا ہے کہ ساوئلنٹ گرین نامی پروڈکٹ، جسے غذائیت سے بھرپور سی فوڈ کا نام دے کر دنیا کے ہر فرد کو کھلایا جا رہا ہے، اصل میں تازہ انسانی لاشوں سے تیار کی جاتی ہے۔ فلم کے مرکزی کردار کی ہذیانی آواز آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے :
” you’ve gotta tell them all. Soylent Green is people ! ”
اکیسویں صدی کا انسان اُس تیز رفتار گھڑ سوار کی مانند ہے جو راستہ بھٹک کر ایک ایسے ویرانے میں آ گیا ہے جہاں نہ تو محبت کی بیل اگتی ہے، نہ احساس کے جگنو چمکتے ہیں۔ کبھی بیگانگی صرف پرلتاریہ اور مقبوضہ اقوام کا مسئلہ ہوا کرتی تھی، اب یہ دنیا کے ہر فرد کا مقدر ہے۔ جب فرد اپنے ماحول سے جدا ہو چکا ہو ، اپنے خاندان سے جدا ہو چکا ہو، اپنی ذات سے جدا ہو چکا ہو، فطرت اور کائنات سے جدا ہو چکا ہو تو کیا اسے صرف اس بنیاد پر زندہ مان لیا جائے کہ وہ بول، سن اور دیکھ سکتا ہے یا اس کی نبض چل رہی ہے؟ الیاسف کے قبیلے نے تو صرف مچھلیوں کو گزند پہنچایا تھا، ہم وہ مورکھ ہیں جنہوں نے سمندروں میں زہر گھول کر حیات کی تمام اقسام کو معدومی کے خطرے سے دوچار کر دیا۔ ہمارا جرم بڑا تھا، لہٰذا ہمیں سزا بھی بڑی سنائی گئی؛ ہمیں بیگانگی کے زنداں میں ڈال دیا گیا ، جو موت کی سب سے بھیانک شکل ہے؛ ہمارے چہرے مسخ کرنے کے بجائے ہمارے دل اور دماغ پر تالے لگا دیے گئے۔
فیس بک کمینٹ