لاہور : یہ معاملہ کروڑوں روپے مالیت کے ایسے بینک اکاؤنٹس سامنے آنے پر کھلا جو ایسے افراد کے نام نکلے جن کے یا تو مستقل ذرائع آمدن تھے ہی نہیں یا پھر محض چند ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر فالودہ فروش، طالبِ علم یا پھر تندور لگانے والا۔ ابتدائی تفتیش پر نا صرف ان جعلی بینکوں سے جڑے مزید بینک، کمپنیاں اور کاروباری شخصیات سامنے آئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ان کی بہن فریال تالپور بھی ان جعلی اکاؤنٹس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہونے جیسے الزامات کی زد میں آئے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تقریباً تین ماہ قبل ایک مشترکہ تحقیاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔ اس تحقیقاتی ٹیم نے پیر کو 32 جعلی بینک اکاؤنٹس کی تفتیش کے حوالے سے حتمی رپورٹ لاہور رجسٹری میں عدالت کے روبرو جمع کروائی۔ 128 صفحات، 95 ضمیموں اور 28 حتمی تفتیشی رپورٹوں پر مشتمل اس رپورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اختتام میں اپنی حتمی تجاویز میں کہا ہے ’شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور نے اومنی گروپ کو فرنٹ کے طور پر استعمال کیا ہے۔‘ ’انھوں نے مالی اداروں پر سیاسی اثر و رسوخ اور بڑے پیمانے پر حکومتِ سندھ کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بھاری دولت اکٹھی کی ہے۔‘ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر دو رکنی بینچ کو رپورٹ کی سمری عدالت میں پروجیکٹر پر لگے پر فلو چارٹ یا خاکے کی مدد سے واضح کی گئی۔ جوں جوں کیس کے مرکزی کرداروں کے خلاف الزامات سامنے آتے گئے، چیف جسٹس کی جانب سے ان کو نوٹس جاری کرنے کے احکامات بھی آتے رہے۔ اس کیس کے ملزمان یا مرکزی کرداروں میں آصف علی زرداری، فریال تالپور، اومنی گروپ، زرداری گروپ، بحریہ ٹاؤن گروپ، بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، ان کے داماد زین ملک اور دیگر شامل تھے۔ عدالت نے انھیں نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ میں ان کی خلاف سامنے آنے والے الزامات پر 31 دسمبر تک جواب جمع کروائیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق پانچ بینکوں کے ذریعے 32 جعلی اکاؤنٹ کھولے گئے اور چلائے جا رہے تھے۔ ان کے ذریعے 42.3 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ تقریباً 14 ارب روپے کا لین دین ان اکاؤنٹوں کے درمیان بھی ہوا جسے لیئرنگ بھی کہتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 15 اکاؤنٹ سمِٹ بینک، آٹھ یونائیٹڈ بینک، سات سندھ بینک جبکہ ایک مسلم کمرشل بینک اور ایک فیصل بینک میں کھولا گیا۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ جعلی یا بے نامی اکاؤنٹ کس نے اور کیوں کھولے؟ ان میں رکھے جانے والا پیسہ کہاں سے آیا؟ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ان اکاؤنٹس میں سے پیسہ کہاں خرچ ہوا اور کہاں سے آیا، اس کی مدد سے اس کے مرکزی کرداروں کا پتہ لگانے میں مدد ملی۔ جے آئی ٹی کے اور ایف آئی اے کے سربراہ بشیر احمد میمن نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کے تین مرکزی کردار تھے۔ بشیر احمد کے مطابق ’بنیادی طور پر زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاؤن گروپ کے درمیان ایک نیکسس تھا جس نے یہ جعلی اکاؤنٹ کھولے اور ان میں کرپشن سے بنایا پیسہ، بینکوں سے فراڈ کے ذریعے حاصل کردہ قرضے اور رشوت وغیرہ کا پیسہ رکھا جاتا تھا۔‘ اومنی تقریباً 83 کمپنیوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جو انور مجید کے خاندان کی ملکیت ہیں۔ یاد رہے کہ انور مجید کو پہلے ہی گرفتار کر کے تفتیش کے بعد کراچی میں جیل بھیجا جا چکا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ اومنی گروپ کی سنہ 2008 میں محض چھ کپمنیاں تھیں۔ اسی برس شروع ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اس کی تعداد بڑھ کر 63 تک پہنچی جو اب 83 ہو چکی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ