لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سیاسی مخالفین کے خلاف اپنے ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے بھی مطمئن نہیں ہیں، اس لئے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کا نیا فیصلہ اور آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاو¿نٹس کے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وہ خود میدان میں اترے ہیں اور ٹویٹ پیغامات کے ذریعے قوم کو باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ان دونوں معاملات میں سامنے آنے والی جے آئی ٹی رپورٹس نے یہ واضح کردیا ہے کہ ملک کیسے کنگال ہوگیا۔ عوام کیوں غربت میں ڈوب گئے اور قوم پر کیسے قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ وزیر اعظم ان پیغامات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ سابقہ حکمران پارٹیوں کے لیڈروں کی بدعنوانی اور لوٹ مار کی وجہ سے ہی ملک کو موجودہ مسائل کا سامنا ہے۔ یہ دعویٰ حقائق سے اتنا ہی متصادم ہے جتنا یہ کہنا کہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جو ملک کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔
عمران خان نے کل پارٹی اجلاس میں احتساب عدالت کے فیصلہ پر بیان میں اور اب ٹویٹ پیغامات میں احتساب عدالت کے فیصلہ، جے آئی ٹی رپورٹ، ملکی معاشی مسائل اور اپنی حکومت کی کارکردگی کے معاملات کا کچھ یوں ملغوبہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری اس ملک کے سب سے بڑے ’چور‘ ہیں اور اس وقت ملک کو جن مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کا بنیادی سبب ان دونوں خاندانوں کی لوٹ مار ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی یہ بات گزشتہ کئی برس سے اس تواتر سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ ملک میں عام طور سے یہ تاثر پیدا ہو چکا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران تک پہنچانے کی ساری ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اور ان کے معاونین اس تاثر کو قوی کرنے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح تحقیقات، عدالتی کارروائی اور قانونی معاملات کو متاثرہ خاندانوں اور متعلقہ پارٹیوں سے بھی پہلے تحریک انصاف اور اس کی حکومت نے سیاست کی نذر کرنے کی بدتر مثال قائم کی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ چند ماہ میں مسائل تو کیا حل کرتی، وہ مسائل کا خاکہ تیار کرنے، انہیں سمجھنے اور معلوم عوامل کی روشنی میں ان کے حل کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے میں بھی بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مسلسل الزام تراشی کے ذریعے لوگوں کو اس دھوکہ میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ سابق حکمران چور تھے، اسی لئے وہ غریب اور محتاج ہیں۔ ایسی صورت میں عمران خان یا تحریک انصاف کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت کی اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں پر شدت سے بے بنیاد الزام تراشی اور اشتعال انگیز حد تک طعنے بازی سے ملک میں بے یقینی، انتشار اور تصادم کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ معاشیات کا عام طالب علم بھی بتا سکتا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لئے اس قسم کا تفرقہ مثبت کردار ادا نہیں کرسکتا۔
حکومت جب جب طعنہ زنی اور الزام تراشی کا ہتھکنڈا اختیار کرتی ہے تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں 1) وہ معاملات کو سمجھنے، حالات کو بہتر کرنے اور صورت حال کو مثبت طور سے تبدیل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے 2) اس ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اس کی ذمہ داری مخالف سیاسی جماعتوں پر ڈالتے ہوئے اپنے حامیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کا لیڈر ناکام نہیں ہو¿ا بلکہ سابقہ حکومتوں نے ملک کا خزانہ خالی کرکے اس ’دیانتدار‘ حکومت کو مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مسئلے حل کرنے میں ناکام ہے۔
گویا اپنی ناکامی اور نااہلی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے کے لئے ہر اس جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے جسے تسلیم کروانے کے لئے اس ملک میں گزشتہ ستر برس سے تواتر سے کام کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر ملک میں موجودہ اقتصادی دگرگوں حالات کی ذمہ داری حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے تو صرف سیاست دانوں کو ہی کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ملک پر 35 برس تک فوج نے براہ راست اور دو دہائی کے لگ بھگ بالواسطہ حکومت کی ہے۔ ملک کے بجٹ کا جو بڑا حصہ کسی خود مختار آڈٹ کی زد میں نہیں آتا وہ دفاعی بجٹ ہے۔ جن ٹھیکوں میں سب سے زیادہ کمیشن لینے کا امکان ہے، وہ عسکری ساز و سامان کی خریداری کے سودے ہوتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن 33 ارب ڈالر کا حساب مانگتے ہیں، وہ کسی سول حکومت کے حوالے نہیں کئے گئے تھے بلکہ وہ فوج کو براہ راست دئیے جانے والے وسائل تھے۔ لیکن نہ تو ان کا کبھی حساب مانگا جاتا ہے اور نہ ہی عمران خان جیسے ’پیدائشی‘ ایماندار لیڈر کو اس بارے میں سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وہ جے آئی ٹی کی ایسی رپورٹوں کو جن کی قانونی حیثیت بھی مشکوک ہے اور جس کے نتائج پر سیاسی اثر و رسوخ کے سائے واضح طور سے دیکھے جا سکتے ہیں، اپنے ساتھی سیاست دانوں کے خلاف دشنام طرازی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔
عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنی اولوالعزمی کے قصے بیان کرتے کرتے اب وہ خود بھی اس گمان میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ وہ ہر مسئلہ کو چٹکی بجاتے حل کر سکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ اسی خوش فہمی میں ایک سو دن کے اندر ملک کے حالات بدل دینے کے دعوے کیا کرتے تھے اور اقتدار سنبھالتے ہوئے بھی یہ بے بنیاد، خوابناک اور بڑی حد تک احمقانہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ ان کی حکومت ملک کے مسائل یوں حل کردے گی کہ جلد ہی پاکستانی کام کی تلاش میں بیرون ملک نہیں جائیں گے بلکہ دوسرے ملکوں کے لوگ پاکستان آکر کام کیا کریں گے۔ جب اس ڈینگ کے پورا نہ ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دی تو وہ طعنوں اور الزامات کے ذریعے خود کو اور اپنے حامیوں کو ایک ایسی بات کا یقین دلانا چاہتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
یہ کہنا مطلوب نہیں کہ اس ملک میں بدعنوانی کا کلچر موجود نہیں بلکہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بدعنوانی کی وجہ کرپٹ لیڈروں کی بجائے بدعنوان نظام ہے۔ عمران خان اس نظام کو بدلنے کی بجائے، اسے اپناتے ہوئے سیاسی مخالفین کو میدان سے دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی انہیں آئینہ نہ دکھا سکے۔ عمران خان اگر واقعی بدعنوانی اور بلا تخصیص احتساب کرنا چاہتے ہیں تو چور اچکوں کی کمی تو ان کی اپنی پارٹی میں بھی نہیں ہے۔ کیا سیاسی موسم کی تبدیلی کے ساتھ پارٹی بدل کر عمران خان کو اقتدار میں لانے والے سب لوگ اب دودھ کے دھلے ہوچکے ہیں۔ عمران خان کو اس وقت قانون، عدالت اور ان کا انصاف یاد نہیں رہتا جب وہ اہم ترین سیاسی معاملات میں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل اور خائن قرار دئیے گئے جہانگیر ترین سے مشاورت کرتے ہیں۔
کیا یہ بدعنوانی نہیں کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے معاملات کو مرکز سے چلانے کی خواہش میں وہاں کمزور اور کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ لائے گئے اور اب وزیر اعظم موقع بے موقع انہیں ایماندار ثابت کر کے یہ یاد کرواتے ہیں کہ قیادت کے لئے لیاقت کی نہیں، دیانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا عمران خان یہ اصول بھی تسلیم کروانے کی کوشش میں لگے ہیں کہ سب ایماندار نااہل اور سب لائق اور معاملات کو سمجھنے والے لوگ بے ایمان ہوتے ہیں۔
جھوٹ اس حد میں بولنا چاہئے جس کا اعتبار کرنا یا جسے ہضم کرنا ممکن ہو سکے۔ پاکستان پر ستر ارب ڈالر کا قرضہ ہے جن میں سے پندرہ سے بیس ارب ڈالر سی پیک منصوبہ میں سرمایہ کاری کے لئے آئے ہیں۔ باقی سرمایہ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے متعدد ترقیاتی منصوبوں کے لئے لیا تھا۔ اس معاشی بوجھ کا الزام چند سیاست دانوں پر عائد کرکے حقیقت سے رو گردانی کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ٹیکس نظام فرسودہ اور ناقص ہے اور کوئی حکومت اسے بہتر بنانے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ سچ یہ بھی ہے کہ ٹیکس میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ ٹیکس اور محصولات وصول کرنے والے محکموں میں پائی جانے والی شدید کرپشن ہے۔ ہر حکومت نے سابقہ حکومتوں پر الزام لگاتے ہوئے ان کی غلطیوں کی اصلاح کے لئے قرضے لینے کا اعلان کیا۔ عمران خان بھی ان حکمرانوں سے مختلف نہیں ہیں۔ لیکن ان کی خواہش ہے کہ ان کی ناکامیاں ان کے سیاسی مخالفین کے اعمال نامہ میں لکھ دی جائیں۔ ایسی خواہش کی تکمیل سراب کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ مہنگے ڈالر اور محاصل میں اضافہ سے جو مہنگائی پیدا ہورہی ہے اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا۔ جلد یا بدیر وہ نعروں پر کان دھرنے کی بجائے، اپنی مجبوریوں اور مشکلات کے لئے حکمرانوں کا گریبان پکڑیں گے۔
عمران خان اگر واقعی احتساب پر یقین رکھتے ہیں تو وہ نیب سے درخواست کریں کہ سب سے پہلے ان کی حکومت میں شامل ایسے وزیروں اور مشیروں کے معاملات کو ترجیحی بنیاد پر طے کرے جن کے خلاف شکایات موجود ہیں۔ پھر وہ احتساب کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرتے ہوئے یہ قانونی پوزیشن تسلیم کریں کہ حکومت بدعنوانی کی نشاندہی کرسکتی ہے، ان پر تحقیق اور فیصلے کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ احتساب اور قانون کی یکساں گرفت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ جرنیلوں اور ججوں سے حساب مانگنے کی بات بھی کریں۔ ملک کے ان قوانین کو تبدیل کیا جائے جو فوج یا عدلیہ سے متعلق لوگوں کو عام احتساب قوانین سے استثنیٰ دیتے ہیں۔ کیا ملک کے سارے سابقہ جرنیل اور جج (اور حاضر سروس بھی) واقعی اپنے معلوم وسائل کے مطابق ہی زندگی بسر رکرہے ہیں۔ یہ دعویٰ تو شاید عمران خان خود بھی ثابت کرنے کے قابل نہ ہوں۔
عمران خان یہ سچ بھی تسلیم کریں کہ نواز شریف کی قانونی مشکلات ان کی عہدوں پر فائز ہونے کے دوران بدعنوانی نہیں ہے بلکہ چوالیس برس قبل کی گئی سرمایہ کاری ہے۔ ان مقدمات میں جن رقوم کا قضیہ ہے،وہ تو اس رقم سے بھی کم ہے جو پاکستان اپنے قرضوں پر روزانہ کی بنیاد پر سود کی مد میں ادا کرتا ہے۔ اسی طرح آصف زارداری کے بارے میں جس جے آئی ٹی رپورٹ کو وزیر اعظم کیس اسٹڈی قرار دے رہے ہیں، اس میں کل 44 ارب روپے کا ذکر ہے۔ یہ رقم تین سو ملین ڈالر بنتی ہے جو پاکستان کے قرضوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
دولت کا تخمینہ لگانے والے کسی انڈیکس میں شریف خاندان یا زرداری خاندان دنیا کے500 امیر ترین لوگوں میں بھی شامل نہیں ہے۔ عام طور سے ان خاندانوں کی مجموعی مالی حیثیت ایک سے دو ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ وسائل کیسے حاصل ہوئے، ان خاندانوں کی لوٹ مار کو پاکستان کے اقتصادی مسائل اور عوام کی غربت کی وجہ قراردینا صریح دروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں۔ جھوٹ کی اس سیاست سے نہ پہلے کسی کو فائدہ ہو¿ا ہے اور نہ ہی عمران خان اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ البتہ ملک کو نقصان ضرور ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ نارو ے)
فیس بک کمینٹ