قلعہ سیف اللہ : پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ابراہیم ارمان لونی کی تدفین اتوار کی شب قلعہ سیف اللہ میں ان کے آبائی قبرستان میں کردی گئی۔ ان کی تدفین میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور مرکزی رہنماؤں علی وزیر اور محسن داوڑ کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما نواب ایاز جوگیزئی سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ لوگوں کی شرکت کے حوالے سے مقامی صحافیوں نے ان کی نماز جنازہ کے اجتماع قلعہ سیف اللہ کی تاریخ کی سب سے بڑا اجتماع قرار دیا ۔
تدفین کے موقع پر منظور پشتین، نواب ایاز خان جوگیزئی اور ابراہیم ارمان کی بہن اڑانگہ لونی نے خطاب بھی کیا ۔ انہوں نے ابراہیم ارمان کے مبینہ قتل کی مذمت کی ۔ اس موقع پر منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ابراہیم ارمان صرف اس علاقے کا ہیرو نہیں بلکہ پورے پشتون وطن کا ہیرو تھا۔ انہوں نے تمام پشتونوں پر زور دیا کہ وہ اپنے درمیان اختلافات کو ختم کرکے متحد ہوجائیں ۔
انہوں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر پشتون متحد ہوجائیں تو ان کے علاقوں میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا گیا ہے وہ ختم ہوجائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے خلاف 4 فروری کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی ہے تاہم فاتحہ خوانی کے تین روز گزرنے کے بعد تمام عمائدین کے ساتھ ملکر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ ابراہیم ارمان کی بہن اڑانگہ لونی نے کہا کہ ابراہیم ارمان صرف ان کا بھائی نہیں بلکہ پوری پشتون قوم کا بھائی اور بیٹا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پشتون سرزمین پر صرف ابراہیم ارمان نہیں بلکہ ہزاروں پشتون نوجوان اور بزرگ مارے گئے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس سے قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے ۔ بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ندیم عسکر نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کو راستے میں کئی مرتبہ روکا گیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ متبادل راستوں سے منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ بعض دیگر رہنما قلعہ سیف اللہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ابراہیم ارمان کی لاش کو پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد کوئٹہ سے قلعہ سیف اللہ لایا گیا۔ سول ہسپتال کوئٹہ کے ایم ایس ڈاکٹر سلیم ابڑو نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کل تک آجائے گی۔ ابراہیم ارمان کی بہن وڑانگہ لونی نے الزام لگایا کہ ان کے بھائی کی موت پولیس تشدد سے ہوئی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی ہے جس میں ان کے سر پر تشدد کے نشانات ہیں۔ صوبائی انتظامیہ نے محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے ساتھیوں پر صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے داخلے پر 90 روز کے لیے پابندی عائد کر دی تھی تاہم وہ اپنے قافلے کے ساتھ صوبے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو )