کراچی : پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر پر نقیب اللہ محسود کے قتل کی فرد جرم عائد کردی ہے جبکہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر ملزمان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیر کو پیش ہوئے۔ جج نے تمام ملزمان کو فرداً فرداً الزامات کی تفیصلات پڑہ کر سنائیں اور کہا کہ وہ نقیب اللہ محسود کے اغوا اور جعلی پولیس مقابلے میں ملوث ہیں۔ جج نے استفسار کیا کہ آیا وہ اپنا جرم تسلیم کرتے ہیں جس پر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان نے ان الزامات سے انکار کیا۔ یاد رہے کہ اس مقدمے میں 13 پولیس اہلکار اور افسران عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت پانچ ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے آئندہ سماعت پر مدعی اور عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو طلب کیا ہے اور سماعت گیارہ اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ گذشتہ سال جنوری میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور نقیب اللہ کا تعلق شدت پسند تنظیموں داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔اس سے قبل عدالت نے نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان پر دائر تمام مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ عدالت کے تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی عابد قائم خانی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نقیب اللہ کو 4 جنوری 2018 کو دو افراد، محمد قاسم اور حضرت علی، کے ہمراہ کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا لیکن بعد میں دونوں ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا جنہوں نے بطور چشم دید گواہ بیان بھی قلمبند کرائے ہیں۔ عدالت کے حکم نامے کے مطابق مشتبہ مقابلے کی ایف آئی آر کے مطابق موقع پر پولیس کے چند اہلکاروں کی موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ موبائل ٹیلیفون کے ریکارڈ کے تجزیے کے مطابق ایس ایس پی راؤ انوار کی بھی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
حکم نامے کے مطابق ‘راؤ انوار کے میڈیا میں دعوے اور کمیٹی کے روبرو بیان کے برعکس نصیب اللہ عرف نقیب اللہ کی کسی دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جائے وقوع سے ملنے والے شواہد اور فورنزک رپورٹ الزامات کو ثابت نہیں کرتے لہذا پانچوں مقدمات خارج کیے جاتے ہیں۔’ یاد رہے کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد محسود قومی موومنٹ نے احتجاج کیا، جس کے بعد اس نے پشتون تحفظ موومنٹ کی شکل اختیار کرلی، جس نے پورے ملک میں مبینہ جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کے خلاف پورے پاکستان میں تحریک شروع کی تھی۔
فیس بک کمینٹ