اسلام آباد: وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اعلی سطحی وفد سے دفترِ خارجہ میں ملاقات کی ہے۔دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے سیاسی وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔یاد رہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان نے سابق افغان جنگجو لیڈر ملا بردار کو آٹھ سال حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا۔ انھیں سنہ 2008 میں پاکستان ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ رواں سال کے آغاز پر انھیں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
ملاقات کے دوران خطے کی صورتحال اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں جبکہ پاکستان گذشتہ 40 برسوں سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ یکساں طور پر بھگت رہا ہے۔وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ‘مذاکرات’ ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آج دنیا، افغانستان کے حوالے سے ہمارے (پاکستان) مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمہ داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے کیونکہ پرامن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا، اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان دنیا کو یہ یاد کرواتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کی ‘ہارڈ کور’ (سخت گیر) سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی زمینی حقائق کو نظرانداز نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ افغان تنازعے کا پرامن حل تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی کا باعث بنے گا۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے موجودہ علاقائی اور بین اقوامی اتفاق رائے نے ایک بے مثل موقع فراہم کیا ہے جو کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ تعطل کے شکار افغان امن عمل کی دوبارہ شروعات جلد ہی ہوں گی۔دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کی تعریف کی اور فریقین کا مذاکرات کی جلد بحالی کی ضرورت پر اتفاق کیا۔اس سے قبل قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان کا ایک اہم وفد سابق جنگجو لیڈر اور اب سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں بدھ کو اسلام آباد پہنچا تھا جہاں وہ اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ یہ وفد طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سینیئر ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں ملا برادر سمیت 11 نمائندے شامل ہیں۔طالبان مذاکرات کاروں کا یہ دورۂ پاکستان ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان کےلیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پہلے ہی پاکستان میں موجود ہیں۔زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ میں ان سے ملاقات کی تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو یہ امریکی نمائندے کی پاکستانی سرزمین پر طالبان کے وفد سے پہلی ملاقات ہو گی۔
اگرچہ اس دورے سے پہلے طالبان کا کہنا تھا کہ وہ دورہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے لیکن ترجمان سہیل شاہین کے مطابق یہ وفد اس دورے میں صرف پاکستانی دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرے گا۔انھوں نے نامہ نگار خدائے نور ناصر کو بتایا کہ ’ابھی تک دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات طے ہیں، باقی سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر وہیں پر ہوں گے اور اُن کے پاس اختیار ہے کہ کس سے ملیں۔‘
وزیراعظم عمران خان نے رواں برس جولائی میں اپنے امریکہ کے دورے میں کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور اُنھیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کہیں گے۔اس کے جواب میں طالبان ترجمان سہیل شاہین نے اُس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اُنھیں دعوت دیں گے تو وہ پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات بھی کریں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ طالبان کے کسی وفد کی افغان امن عمل کے سلسلے میں پاکستان آمد کی بات کی گئی ہو۔رواں سال فروری میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کے سیاسی دفتر کا ایک وفد 18 فروری کو پاکستان کا دورہ کرے گا لیکن پھر بعد میں طالبان نے کہا تھا کہ اُنھیں اقوام متحدہ نے پاکستان جانے سے روک دیا۔اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اُنھوں نے افغان حکومت کی تشویش پر طالبان رہنماؤں سے ملاقات ملتوی کی۔
افغانستان میں جنگ بندی اور امریکی فوج کے انخلا کے سلسلے میں طالبان وفد کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات ختم ہونے کے بعد طالبان وفد کا یہ چوتھا غیرملکی دورہ ہے۔ اس سے پہلے وہ روس، چین اور ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔رواں سال ستمبر کے اوائل میں امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس سے پہلے لگ بھگ 11 ماہ تک امریکی اور طالبان وفود کے درمیان مذاکرات چلتے رہے اور امریکی صدر کے اعلان سے ایک ہفتہ قبل وفود کی سطح پر مسودے پر اتفاق ہوگیا تھا تاہم صدر ٹرمپ نے مذاکرات ختم کر دیے تھے۔
(بشکریہ : بی بی سی )