چند روز پہلے پاکستانی میڈیا میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کی اس دھمکی کا بہت چرچا رہا کہ ضرورت پڑی تو بھارتی فوج لائن آف کنٹرول بھی عبور کرسکتی ہے لیکن بھارتی میڈیا کو دیے گئے اس انٹرویو میں دھمکیوں، سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمد کے اندیشوں، پاکستان پر الزامات اور فضائی یا بری فوجی کارروائی کے بے بنیاد دعوؤں کے درمیان امن اور سرحد پر سکون قائم رکھنے کی بات بھی موجود تھی۔
پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 5 اگست کے بعد پیدا ہونے والے بحران اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی طرح جنگ کے خطرے یا مہلک ہتھیاروں کے استعمال تک نوبت پہنچنے کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ حتی کہ ان کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس دوران گو کہ کشمیر میں بھارتی استبداد کا ذکر کیا اور کشمیریوں سے اظہار یک جہتی بھی کیا لیکن کسی ایسے تصادم کی طرف اشارہ نہیں دیا جس کا ذکر گزشتہ دو ماہ سے عمران خان پوری قوت اور شدت سے کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے دورہ کے دوران جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ دیگر ملاقاتوں اور انٹرویوز میں ان کا بنیادی فوکس اسی نکتہ پر رہا ہے کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ختم ہونے پر وہاں شدید احتجاج ہوگا جس کے نتیجے میں خون کی ندیاں بہیں گی۔ پاکستانی وزیر اعظم کو اندیشہ ہے کہ اس خوں ریزی کا الزام بھارت، پاکستان پر عائد کرے گا جو جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اسی تناظر میں وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا تو پاکستان آخری دم تک لڑے گا۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ عمران خان دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔
ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم پرجوش انداز میں ممکنہ جنگ کی باتیں کرتے رہے ہیں تو دوسری طرف پاک فوج کے سربراہ نے اس دوران ایک سے زائد بار پاکستان کے استحکام، خوشحالی اور پائیدار امن کی بات کی ہے۔ یہ قرین از قیاس نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کو اگر واقعی بھارت کی طرف سے کسی جنگ کا حقیقی اندیشہ ہو تو پاک فوج کے سربراہ اسے محسوس نہ کرسکیں اور جنگ کے حالات میں امن کی بات کرتے رہیں۔ گو کہ جنرل باجوہ نے بھی کشمیریوں کی بھرپور اور آخر دم تک امداد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اس امداد میں عسکری کارروائی یا کشمیری جہادیوں کی عملی امداد شامل نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان اپنے علاقے سے کسی قسم کے انتہا پسندوں کو سرحد عبور کرکے مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے گا۔ اسی لئے آئی ایس پی آر نے گزشتہ ہفتے کے دوران سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے ممالک کے سفیروں کو بالاکوٹ جا کر خود یہ مشاہدہ کرنے کی دعوت دی تھی کہ وہاں کسی قسم کا دہشت گرد کیمپ موجود نہیں ہے۔ بھارتی آرمی چیف بالاکوٹ کا حوالہ دے کر پاکستان کو متنبہ کرتے رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران اسی قسم کی پیشکش پوری دنیا کے ملکوں کو کی ہے۔ اس حوالے سے یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم جنگ کے اندیشے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن بھارتی سیاسی قیادت یا وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ کسی براہ راست تصادم کی کوئی بات نہیں کی۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کے خطاب میں انہوں نے دہشت گردی سے مقابلہ کا ذکر کیا اور ہوسٹن میں اپنے ہموطنوں سے خطاب میں بالواسطہ طور سے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگایا۔ تاہم اس کی نوعیت عمومی تھی اور انہوں نے نہ پاکستانی وزیراعظم پر ذاتی حملہ کیا اور نہ پاکستان کا نام لیا۔ اس کے برعکس عمران خان نے مودی کا نام لے کر انہیں فاشسٹ اور ہندو نسل پرست قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس بھارتی فوجی لیڈروں نے سرحد پار سے دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے فوجی حکمت عملی بیان کرنے کی کوشش ضرور کی ہے جسے پاکستان میں جنگ کی دھمکی سمجھا جاتا ہے۔
یہ صورت حال اس سال کے شروع میں پلوامہ سانحہ، دونوں ملکوں کے دوران فضائی جھڑپ، ابھے نندن کی گرفتاری اور رہائی کے مقابلے میں مختلف ہے۔ اس وقت نریندر مودی پاکستان پر الزام بھی لگاتے تھے اور واشگاف لفظوں میں اسے سبق سکھانے کی بات بھی کرتے تھے۔ پاکستانی لیڈر اس وقت ان دھمکیوں کو مودی کی انتخابی ضرورت سمجھ کر مسکرا دیتے تھے اور یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور امن کا منصوبہ آگے بڑھائے گی۔ اس کے برعکس اس نے کشمیر کو ہڑپ کر عمران خان اور پاکستانی حکومت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اسے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
ان حالات میں چند نکات پر غور کرنا اہم ہوگا:
1۔ عمران خان نے مودی اور بی جے پی سے جو امیدیں باندھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ اب وہ اس سیاسی خفت کو مٹانے کے لئے وہی حربے مودی پر آزما رہے ہیں جو بھارتی وزیر اعظم نے اس سال کے شروع میں پاکستان کے خلاف استعمال کئے تھے۔
2– پاکستانی وزیر اعظم جنگ کے خطرے کی بات کرتے ہوئے دنیا سے مداخلت کی اپیل کررہے ہیں جبکہ آرمی چیف ملک کی خوشحالی اور پائیدار امن کی بات کرتے ہیں۔ ان دونوں لیڈروں کی باتوں میں اس فاصلے کو دیکھتے ہوئے کیا یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ سول ملٹری ہم آہنگی کا تاثر کمزور ہورہا ہے۔ عمران خان کو اگرچہ ایک پیج پر ہونے کا بدستور واہمہ ہے لیکن وہ فوج کے مؤقف کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں اور غالباً عسکری بریفنگ میں کہی جانے والی باتوں کو پورے غور سے سننے اور سمجھنے سے عاری ہیں۔
3۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا ایک واضح مؤقف ہے لیکن بھارت نے شق 370 منسوخ کر کے اپنی پوزیشن تبدیل کرلی ہے۔ اب اگر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس میں پاکستان کیوں کر بھارتی حکومت کو اپنا عملی اقدام واپس لینے پر آمادہ کرے گا۔ تاآنکہ بھارتی سپریم کورٹ حکومت کے اس اقدام کو غلط قرار دے اور اس طرح پاکستان کو ایک غیبی امداد میسر آجائے۔ سوچنا چاہئے بھارت میں قوم پرستی کے موجودہ ماحول میں کیا بھارتی سپریم کورٹ ایسا کوئی حکم دے سکے گی؟
4۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے اور کسی احتجاج یا کشمیریوں کی طرف سے کسی عسکری کارروائی کا الزام پاکستان پر عائد نہ کیا جائے۔ اس سلسلہ میں پیش بندی کے طور پر اگرچہ پاکستان سے ہمہ قسم مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی تو کروائی گئی ہے لیکن کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کرنے کے حق کا معاملہ کسی عالمی فورم پر نہیں اٹھایا گیا۔ حالانکہ جنرل اسمبلی میں پاک بھارت جنگ کی ہولناکی کا نقشہ کھینچنے کی بجائے یہ بات واضح کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر کوئی قوم بیرونی تسلط اور اپنے علاقے پر زبردستی قبضہ کے خلاف مسلح جد وجہد کرتے ہیں تو اسے دہشت گردی نہ قرار دیا جائے۔ امریکہ ڈی فیکٹو طور سے اسی اصول کو مانتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔ حالانکہ اس دوران طالبان نے حملے بھی جاری رکھے تھے۔ کشمیریوں کی مسلح جد وجہد کے حق کو تسلیم کروانا پاکستان کی سفارتی ذمہ داری ہے۔ تب ہی بھارت کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے سے باز آ سکے گا۔
5۔ بھارت کا 5 اگست کا اقدام جتنا واضح اور ماضی کی پالیسی کے برعکس تھا، پاکستان کا مؤقف اس کے مقابلے میں پرانی لکیر پیٹنے اور الزام تراشی تک محدود رہا ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان بس اپنی حفاظت کے لئے پریشان ہے، اسے کشمیریوں کے حق خوداختیاری کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہے اور اس پر کیسے عمل کیا جائے گا؟
ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ پرجوش صورت حال کی اینڈ گیم یہی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت نہ کرنے کی ناقابل تردید ضمانت فراہم کرے گا اور بھارت اس کے بدلے میں لائن آف کنٹرول کو پرسکون رکھنے کا وعدہ کرے گا۔ کشمیر کی آزادی کا معاملہ دو ملکوں کے درمیان جنگ روکنے کا سوال بنا دیا گیا ہے۔ بھارت کو اسے مان لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
اس دوران سیکورٹی فورسز کے کنٹرول اور سخت قوانین کے سہارے بھارت کشمیر پر تسلط مستحکم کرتا رہے گا۔ مجوزہ سرمایہ کاری اور ترقی کے منصوبوں کی بدولت اگر مقبوضہ وادی کے لوگوں کو روزگار اور خوش حالی میسر آگئی تو آزادی کی بات فطری طور سے ایک محدود طبقے تک سمٹ کر رہ جائے گی۔ جذبات کے بغیر حالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پاکستان کی موجودہ پالیسی کا یہی فطری انجام ہوگا۔ یعنی دفاع کے نقطہ نظر سے اہداف کے بغیر اختیار کی گئی کشمیر یا خارجہ پالیسی ہی پاکستان کے اس مؤقف کو دفن کرنے کا سبب بنے گی کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کا حق ملنا چاہئے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ ناروے)