ملتان ۔۔معروف ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے ایک سال بعد بھی ملتان پولیس مقدمے کاچالان عدالت میں پیش نہ کرسکی۔تفتیش کے دوران چار پولیس افسر بھی تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ماڈل قندیل بلوچ سیلفی گرل کے نام سے جانی جاتی تھی اوراسے 15اور16جولائی 2016ءکی درمیانی شب ملتان کے علاقے مظفرآباد میں قتل کردیاگیاتھا۔ممتاز ماہر قانون اور نیوویژن فاﺅنڈیشن کے صدر شہباز علی خان گورمانی ایڈووکیٹ نے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ پولیس اس مقدمے کی تفتیش بھی صحیح طریقے سے نہیں کرسکی۔انہوں نے کہاکہ میں نے تفتیشی افسر عطیہ ناہید سے خود ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ اگر اس مقدمے کی سائنسی بنیادوں پرتفتیش کی جائے تو ملزمان تک پہنچا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ مفتی عبدالقوی کو بھی تفتیش کے بعد بے گناہ قراردیدیاگیا۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تفتیش کے حوالے سے پولیس دباﺅ کاشکارہے۔واضح ہوکہ ایک سال قبل قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پولیس نے اس کے بھائی وسیم ،کزن حق نواز ،ٹیکسی ڈرائیور عبدالباسط اور رشتے دار ظفر کے خلاف مقدمہ درج کیاتھا۔عدالت کے حکم پر معروف عالم دین مفتی عبدالقوی کوبھی شامل تفتیش کیاگیا۔ایک سال سے یہ مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے جبکہ ملزمان عبدالباسط اورظفر ضمانت پر رہائی کے بعد اشتہاری ہوچکے ہیں۔ایک ملزم اسلم شاہین ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہے جبکہ ملزم عارف سعودی عرب میں ہونے کی وجہ سے شامل تفتیش نہیں ہوسکا اور اسے بھی اشتہاری قراردیا جاچکا ہے۔ابتدائی تفتیش انسپکٹر الیاس حیدر کوسونپی گئی تھی تاہم ناقص کارکردگی کے باعث یہ تفتیش انسپکٹر عطیہ ناہید کودی گئی ۔ان کے بعد میاں ارشاد الحسن اور اس وقت سب انسپکٹر نور اکبر اس کیس کی تفتیش کررہے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز بھی اس معاملے پر خاموش ہیں۔نامکمل تفتیش اور چالان پیش نہ کیے جانے کے حوالے سے جب پولیس افسروں سے رابطہ کیاگیا توانہوں نے اس بارے میں گفتگوکرنے سے انکارکردیا۔
فیس بک کمینٹ