آج سے ایک برس قبل ترکی میں فوج اور فضائیہ کے بعض عناصر نے جمہوریت کا خاتمہ کرنے اور صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ وہ اس بغاوت میں ناکام رہے۔ اس ایک سال کے دوران ترک حکومت کے علاوہ ترکی اور عالمی سطح پر ماہرین اور تجزیہ نگار اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ 95 برس میں چوتھی بارکی جانے والی فوجی بغاوت کی کوشش کیوں کر ناکام ہوئی اور ریاستی ڈھانچے اور انٹیلی جنس نظام میں ایسی کون سی کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے فوج کے بعض عناصر کو ایک بار پھر جمہوریت کا خاتمہ کرنے کا حوصلہ ہوا۔ اس حوالے سے ملک کے مذہبی رہنما فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم ’’خدمت‘‘ کے کردار اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں تک کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن اس بارے میں دو رائے موجود نہیں ہے کہ اس بار بعض فوجی دستوں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ عوام کا جذبہ و حوصلہ تھا جنہوں نے فوری طور پر سڑکوں پر نکل کر اور فوجی دستوں اور ٹینکوں کا سامنا کرکے باغی فوجیوں کو ہتھیار پھینکنے اور اپنی شکست قبول کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان کی طرح ان تمام ممالک میں ترک عوام کے اس ایثار اور جمہوریت کےلئے قربانی کے جذبہ سے سیکھنے کے بہت سے اسباق ہیں جو اپنے اپنے معاشرہ میں ایک ایسا جمہوری نظام استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے کسی فوجی بغاوت سے کوئی خطرہ نہ ہو۔
ترکی میں آج پورے جوش و خروش سے اس ناکام فوجی بغاوت کے خلاف عوامی کامیابی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ شہر شہر قریہ قریہ جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ خوشی کے اس اظہار میں کوئی جماعتی تقسیم نہیں ہے حالانکہ ترکی کا ایک بہت بڑا طبقہ طیب اردوان کی پالیسیوں اور اختیارات پر تسلط حاصل کرنے کی سیاست کے خلاف ہے۔ اس کا اظہار اس سال اپریل میں منعقد ہونے والے آئینی ریفرنڈم میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ اس ریفرنڈم کے ذریعے صدر اردوان نے تمام اختیارات پارلیمنٹ کی بجائے صدر کے ہاتھوں میں مرتکز کر لئے ہیں۔ اب وہی تمام اہم قومی امور پر حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے سربراہان سے لے کر عدالتوں کے جج مقرر کرنے کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہو چکا ہے۔ وزیراعظم کا عہدہ ختم ہو چکا ہے اور صدر اپنے نائبین کے ذریعے پارلیمنٹ کی منظوری اور بحث کے بغیر خارجہ و قومی سلامتی امور کے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ اس ریفرنڈم کے حوالے سے صدر اردوان کو نہ صرف یہ کہ یورپی ملکوں کی طرف سے نکتہ چینی کا سامنا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ اس ریفرنڈم میں صرف ڈیڑھ فیصد یا تقریباً 15 لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ زیادہ اختیارات کے حصول اور نئے نظام کےلئے ہونے والی اس سیاسی جنگ کو اگر گزشتہ سال جولائی میں سامنے آنے والی قومی سیاسی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بدترین جمہوریت اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نا پسندیدہ شخص کو بھی فوج کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے مقابلے میں بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کی آسان سی وجہ یہ ہے کہ ترک قوم ماضی کے تجربات سے یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ جمہوری حکومت خواہ کیسی ہی سخت گیر اور آمرانہ رویہ کی حامل ہو، اسے ووٹ کی طاقت سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ فوجی طاقت کی بنیاد پر حکومت سنبھالنے والے جنرل اور فوجی لیڈروں سے ووٹ کی بنیاد پر مواصلت ممکن نہیں ہوتی۔
پاکستان میں حکومت سے لے کر عوامی سطح تک ترکی سے مقابلہ کرنے اور اس کی مثال دینے کا چلن عام ہے۔ مختلف شعبوں میں ترکی کی مثال دیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی جا سکتی ہے اور ملک میں معاشی احیا اور سیاسی استحکام کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے لیکن کوئی اس بنیادی رویہ کو اختیار کرنے کےلئے تیار نہیں ہے کہ عام لوگوں میں یہ یقین پختہ کیا جائے کہ فوج کے اشارے یا براہ راست مداخلت کے ذریعے آنے والی کوئی تبدیلی نہ تو پائیدار ہو سکتی ہے، نہ اس سے عوام کی بہبود کا راستہ ہموار ہوگا اور نہ ہی یہ طریقہ ایک متفقہ جمہوری نظام کا متبادل ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس حکومت سے لے کر تمام اپوزیشن پارٹیوں تک عوام کی رائے اور ووٹ کی طاقت کا نعرہ ضرور بلند کرتی ہیں لیکن وہ خود اصل طاقت فوجی قیادت کی تائید و حمایت سے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ملک میں کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف کسی بھی نام نہاد عوامی تحریک کا جائزہ لے لیا جائے، اس میں خفیہ ایجنسیوں کے اثرات واضح طور سے دکھائی دیں گے۔ سیاسی رہنما اب تو فوج سے روابط کو خفیہ رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھتے بلکہ فوج اور سول حکومت کے درمیان جب بھی اختلاف رائے کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو تمام اپوزیشن اس کے سیاسی اثرات اور جمہوریت کےلئے نقصان کی پرواہ کئے بغیر حکومت کی گوشمالی میں یک زبان ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے جمہوری حکومت سیاسی پارٹیوں سے امداد حاصل کرنے کی بجائے فوج کے سامنے ہتھیار پھینکنے اور اس کی شرائط ماننے پر مجبور ہوتی ہے۔ حال ہی میں ڈان لیکس کا معاملہ اس کی زندہ مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2014 کا دھرنا اور اس کا اچانک خاتمہ فوجی عناصر کی درپردہ سرپرستی اور بعد میں مخالفت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن کوئی سیاسی لیڈر نہ تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کےلئے تیار ہے اور نہ ہی اس منفی اور عوام دشمن طریقہ کار کو ترک کرنے ےیلئے راضی ہے۔ کیونکہ کسی سیاسی ایجنڈے اور ٹھوس عوامی حمایت کے بغیر ہر سیاسی لیڈر فوج کی باالواسطہ اعانت سے برسر اقتدار آنے کےلئے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔
اسی صورتحال کی وجہ سے ملک میں عوام کے اندر فوج کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ ماضی میں سنگین فوجی غلطیوں کے باوجود ایک بہت بڑا طبقہ بہرصورت سیاسی حکومت کے مقابلے میں فوج کی حمایت کرنا اور اسے تمام مسائل کا حل سمجھنے پر تیار رہتا ہے۔ اس وقت جبکہ ملک کا منتخب وزیراعظم بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، اس کے خلاف الزامات کی تحقیق سے لے کر سیاسی مہروں کی نقل و حرکت تک میں فوجی اداروں کی شرکت و مداخلت کو تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ ایسے مواقع پر سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے اور مضبوط ادارے کے بعض افسران کی ماضی میں کی جانے والی سیاسی اور مالی بدعنوانیوں کا ذکر کرنا یا جوابدہی کا سوال اٹھانا، گناہ عظیم سے کم حیثیت نہیں رکھتا۔ یہی وہ فرق ہے جو پاکستانی رائے عامہ اور سیاسی لیڈروں کے مزاج اور ترکی کے حالات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ گزشتہ جولائی میں جب فوج کے دستوں نے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں استنبول کی سڑکوں پر اتاریں اور فضائیہ کے طیاروں نے صدارتی محل اور پارلیمنٹ پر حملے کئے تو ان کا مقابلہ کرنے کےلئے باہر نکلنے والے لوگوں میں یہ تخصیص موجود نہیں تھی کہ وہ کس سیاسی نظریہ ، نظام حکومت یا پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ اس اصول پر دل و جان سے متفق تھے کہ سیاسی معاملات ملک کی سیاسی قوتوں اور عوام کو ہی حل کرنا ہیں۔ فوج کی طرف سے ان معاملات میں مداخلت منظور نہیں کی جا سکتی۔
اس کا عملی مظاہرہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد استنبول میں ہونے والے ایک عظیم الشان عوامی جلسہ میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں صدر طیب اردوان کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے اور وہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ ان کے باہمی اختلافات سے قطع نظر وہ جمہوریت کے تحفظ اور عوامی حکمرانی کے اصول کی بالا دستی کےلئے متحد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام سیاسی اختلافات اور اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق عوام کی حمایت حاصل کرنے اور اس طرح حق حکمرانی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس میں برے بھلے لوگ سامنے آ سکتے ہیں لیکن جمہوری طریقہ کار کے تسلسل سے جلد یا بدیر انہیں عوامی عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے اور اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ عوام میں سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کا احتساب کرنے کا شعور بھی اسی صورت میں توانا ہو سکتا ہے جب انہیں معلوم ہوگا کہ وہ جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، وہ صرف ان کے سامنے جوابدہ ہیں اور کوئی ان دیکھی قوت نہ تو ان کا کٹھ پتلی تماشہ بنائے گی اور نہ وقت بے وقت قومی مفاد کا نعرہ لگاتے ہوئے ان نمائندوں کو بے اختیار اور بے توقیر کرے گی۔ تاہم یہ رویہ اس وقت مستحکم ہوگا اگر سیاستدان بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اصول پر کاربند ہو سکیں کہ باہمی اختلافات اور اقتدار کی خواہش کے باوصف وہ کسی غیر جمہوری قوت کی اعانت اور امداد قبول کرنے کو گناہ عظیم سمجھیں گے۔
جب یہ مزاج فروغ پا جائے گا تو پاکستان میں بھی منتخب حکومت خواہ کیسے ہی حالات کا سامنا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اسے یہ اندیشہ لاحق نہیں ہوگا کہ بندوق کی زد پر وزیراعظم کو اپنی پوزیشن سے علیحدہ ہونے کا پیغام مل جائے گا۔ اور جن قوتوں کو اس موقع پر منتخب لیڈر کی امداد کےلئے باہر نکلنا چاہئے، وہ جمہوریت کی اس ناکامی پر تالیاں بجا رہے ہوں گی۔ جب تک عوامی رویہ میں یہ تبدیلی رونما نہیں ہوگی پاکستان کو ترکی بنانے کی باتیں بے بنیاد اور بے مقصد ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ