گوجرانوالا : گوجرانوالا کے ڈپٹی کمشنر سہیل احمد نے خودکشی کی یا انہیں قتل کیا گیا؟ معاملہ معما بن گیا، پولیس اور مقامی انتظامیہ جان لیوا واقعے کو خودکشی قرار دینے پر مصر ہے لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ خودکشی کرنے والا شخص گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے یا بعد میں اپنے ہاتھ پشت پر رسی سے کیسے باندھ سکتا ہے؟ سہیل احمد کی لاش گھر میں پنکھے سے لٹکی ملی۔ڈپٹی کمشنر گوجرانوالا سہیل احمد ٹیپو کے قتل کا مقدمہ ان کے ماموں کی درخواست پر درج کر لیا گیا ہے۔ تفتیشی حکام کیس کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہوگئے، ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے تمام ملازمین کوحراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کردی ہے ۔سہیل کی والدہ کا کہنا ہے کہ رات ساڑھے تین بجے سہیل نے کہا تھا کہ چھت پر بکری ہے، اگر کوئی آواز ہو تو پریشان نہ ہونا، صبح دفتر سے آپریٹر کا فون آنے پر والدہ نے کمرے کادروازہ کھولا تو لاش پنکھے سے لٹک رہی تھی اور دونوں ہاتھ پیچھےبندھے تھے۔ابتدائی تفتیش میں حکام نے واقعہ کو خودکشی قرار دے دیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ سکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے بغیرڈپٹی کمشنر کی موت کا معمہ حل نہیں ہوسکے گا۔تفتیشی حکام نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرلئے ہیں، ماہرین نے فنگر پرنٹ اورفرانزک ٹیم نے مختلف نمونے حاصل کرلئے ہیں، تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹ کے بعد ہی موت کی حتمی وجوہات کا تعین ہوسکے گا۔سہیل احمد ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں اپنے فالج زدہ والد اور والدہ کے ہمراہ رہتے تھے جبکہ ان کی بیوی اور بچے لاہور میں مقیم ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سہیل احمد ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور کچھ دن پہلے سائیکاٹرسٹ سے اپنا معائنہ کرایا تھا، ڈپٹی میئر سلمان خالد کا کہنا ہے کہ سہیل ٹیپو کی آج لاہور میں حمزہ شہباز سے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے حوالے سے ملاقات طے تھی۔
ـ( بشکریہ : جنگ ویب )