ایرانی جیل میں قید 51 سالہ نرگس محمدی کو سال رواں کا نوبل امن انعام دیا گیا ہے۔ اس انعام کا اعلان نوبل امن کمیٹی کی سربراہ بیرت رائس آندرسن نے آج صبح اوسلو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ نرگس محمدی نے ایرانی خواتین کی آزادی و حقوق کے لیے بے مثال جد و جہد کی ہے حتی کہ وہ اس وقت بھی جیل میں ہیں۔ نوبل کمیٹی کے خیال میں انسانی حقوق کی جد و جہد دنیا میں قیام امن کے لیے اہم ترین بنیاد ہے۔ گزشتہ سال بھی نوبل امن انعام انسانی حقوق کی جد وجہد کرنے والے دو اداروںکو دیا گیا تھا۔ ان کا تعلق روس اور یوکرین سے تھا۔
نرگس محمدی نے ایران میں خواتین کے استحصال کے خلاف سال ہا سال تک جد و جہد کی ہے۔ان کی جد و جہد کا مقصد سب کو آزادی سے جینے کا حق دلوانا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دو دہائی کے دوران زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے۔ وہ اس وقت بھی قید میں ہیں۔ وہ خواتین کو جبراً حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے علاوہ موت کی سزا کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ وہ ایران سے نوبل امن انعام جیتنے والی پہلی خاتون شیرین عبادی کے قائم کردہ انسانی حقوق سنٹر کی نائب صدر ہیں۔
نوبل کمیٹی نے امید ظاہر کی ہے کہ ایرانی حکومت نرگس محمدی کو رہا کرے گی اور انہیں دسمبر میں نوبل امن انعام لینے کے لیے اوسلو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ بیرت رائس آندرسن کا کہنا تھا کہ نرگس محمدی کو انسانی حقوق کے لیے جراتمندی سے جد وجہد کی انفرادی طور پر بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی ترجمان الزبتھ تھروسل نے جینوا سے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نوبل امن انعام اس خاتون کے حوصلے اور ایرانی خواتین کی جد و جہد کو خراج تحسین ہے‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا ہے۔ وہ اپنے بچوں کیانا اور علی کے ہوش سنبھالنے کی عمر کا بیشتر وقت قید میں تھیں۔ اب نہ صرف آٹھ سال سے انہیں مل نہیں سکیں بلکہ ان سے فون پر بات بھی نہیں کرنے دی جاتی۔
انہوں نے اٹھارہ ماہ سے اپنے بچوں کی آواز نہیں سنی۔ وہ اپنے شوہر رحمانی کے ساتھ شادی کے 24 سالوں میں صرف چھ سات سال ہی اکٹھے رہ سکی ہیں ورنہ وہ کسی نہ کسی جرم میں گرفتار ہوتی رہی ہیں۔ ان کے شوہر اور دو بچے 2012 سے فرانس میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنی بالغ زندگی کا بیشتر وقت جیل میں گزارا ہے اور انہیں جلد رہائی کی توقع بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ایران کے جابرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانا اور خواتین کے حقوق کے لئے جد و جہد کرنا بے حد اہم ہے۔
گزشتہ سال ستمبر کے دوران ایران میں ایک نوجوان خاتون ماشا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے وقت بھی نرگس محمدی جیل میں ہی تھیں ۔ اس جد و جہد نے ’زن، زندگی اور آزادی‘ کا سلوگن اختیار کیا تھا۔ نرگس محمدی کی جد و جہد کا محور بھی یہی مقاصد ہیں۔ وہ خواتین کے ساتھ ریاستی جبر کو مسترد کرتی ہیں۔ ماشا امینی کی ہلاکت پر ہونے والے احتجاج کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس احتجاج نے ثابت کیا ہے کہ ایرانی معاشرے میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اے ایف پی کو جیل سے ایک سوال کے تحریری جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’ اب اس تحریک کو دبایا نہیں جاسکتا‘۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اس وقت مختلف جرائم میں دی گئی 10 سال 9 ماہ قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں 154 کوڑے مارنے کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔ ان کے خلاف جیل میں سرگرمیوں کے الزام میں پانچ مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی رہائی کی کوئی امید نہیں ہے لیکن وہ جد و جہد ترک نہیں کریں گی۔
نرگس کے شوہر تقی رحمانی نے فرانس سے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’نرگس بہت اولالعزم انسان ہیں۔ ان کی زندگی کے تین مقاصد ہیں۔ ایک انسانی حقوق کا احترام، دوسرے خواتین کے مساوی حقوق اور تیسرے کسی بھی جرم میں ملوث افراد کو انصاف کی فراہمی۔ نرگس محمدی 1972 میں زنجان میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے انجینئر بننے کے لیے فزکس میں تعلیم حاصل کی لیکن صحافت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا۔ اور اصلاحات کے حامی ایک اختبار کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ 2000 میں انہوں نے شیریں عبادی کے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے سنٹر کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ یہ سنٹر خاص طور سے موت کی سزا کے خلاف سرگرم ہے۔
نرگس محمدی کو ملک چھوڑنے کا موقع ملا تھا لیکن انہوں نے بے ’آوازوں کی آواز‘ بننے کو ترجیح دی۔ جیل میں رہتے ہوئے وہ جیل کی حالت اور قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں مطلع کرتی رہی ہیں۔ اپنی کتاب ’سفید تشدد‘ میں انہوں نے تفصیل سے ایرانی جیلوں کے حالات کے بارے میں لکھا ہے اور بتایا ہے کہ قید تنہائی انتہائی اندوہناک ہے۔ انہیں خود بھی قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اہل خاندان ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس حوالے سے معلومات اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ ماشا امینی کی برسی کے موقع پر نرگس محمدی اور ان کی بعض ساتھیوں نے احتجاج کرنے کے لیے اپنے حجاب نذر آتش کردیے تھے۔
ان کے بھائی حمید رضا محمدی ناروے میں رہتے ہیں۔ اپنی بہن کو نوبل امن انعام ملنے پر ایک نارویجئن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے حیرت انگیزخوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ انعام ان لوگوں کے لیے خراج تحسین ہے جو ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے کام میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ ایرانی حکام نرگس محمدی کو انعام لینے کے لیے اوسلو آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم انہوں نے اس رائے کو مسترد کیا کہ جیل میں قید کسی شخص کو انعام دینے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے یا اس سے ان کی زندگی کو مزید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ ان کا کہنا ہے یہ ضروری ہے کہ دنیا ایرانی حکومت پر واضح کرے کہ اسے انسانی حقوق کی صورت حال پر شدید تشویش ہے۔ نوبل امن انعام بہت واضح طور سے یہ پیغام پہنچاتا ہے۔
خواتین کے ساتھ جابرانہ طرز عمل اختیار کرنے پر ایران کو عالمی سطح پر شدید نکتہ چینی کا سامنا رہتا ہے۔ ماشا امینی کی ہلاکت کے بعد خواتین کی سربراہی میں لاکھوں لوگوں نے کئی ماہ تک احتجاج جاری رکھا تھا۔ نوبل امن کمیٹی کی سربراہ بیرت رائس آندرسن نے آج بتایا کہ گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے اس احتجاج کے دوران 500 افراد ہلاک ہوئے او ر 20 ہزار سے زائد گرفتار کیے گئے۔ حکام نے متعدد افراد کو موت کی سزا بھی دی ۔ لیکن احتجاج کی کیفیت مکمل طور سے ختم نہیں ہوئی۔ نرگس محمدی جیسی دلیر خواتین جیل میں قید ہونے کے باوجود بنیادی انسانی حقوق اور بطور خاص ایران میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ روز ہی تہران کی ایک انڈر گراؤنڈ ٹرین پر سوار ہونے والی ایک سولہ سالہ لڑکی آرمیتا گراوند کو مبینہ طور پر ایران کی اخلاقی پولیس ’گشت ارشاد‘ کے ایک رکن نے پوری طرح سر نہ ڈھانپنے پر دھکادیا اور وہ زمین پر گرنے سے شدید زخمی ہوگئی۔ سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ اب کوما کی حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ لیکن حکام اس حوالے سے ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کررہے ہیں اور اسے ایکسیڈنٹ بتایا جارہا ہے۔ تاہم ’گشت ارشاد‘ جیسے ادارے کا وجود اور اس کے ارکان کی طرف سے راہ چلتی خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے روز مرہ واقعات ایران میں شدید خوف و ہراس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایک ایرانی خاتون کو نوبل امن انعام ملنے سے صرف ایران میں خواتین کی صورت حال اور انسانی حقوق کی کیفیت کے بارے میں ہی عالمی رائے مضبوط نہیں ہوگی بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں خواتین کو باوقار مقام دینے، ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے، انہیں تعلیم اور روزگار کاموقع فراہم کرنے کی جد و جہد کو تقویت ملے گی۔ گزشتہ چند سالوں سے یہ بحث شدت اختیار کرگئی ہے کہ امن انعام دیتے ہوئے نارویجئن نوبل کمیٹی کس حد تک الفریڈ نوبل کی وصیت پر عمل کرتی ہے۔ الفریڈ نوبل نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ ’ ایسے شخص کو انعام دیا جائے جس نے سال گزشتہ کے دوران میں اقوام میں ہم آہنگی کے لیے اہم ترین کام کیا ہو۔ مسلح افواج کے خاتمے یا کمی کے لئے خدمات سرانجام دی ہوں اور دنیا میں امن کو فروغ دیا ہو۔ میری خواہش ہے کہ انعام دیتے ہوئے کسی خاص قومیت کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے بلکہ سب سے بہتر خدمت انجام دینے والے شخص کو یہ انعام ملے خواہ اس کا تعلق اسکنڈے نیویا سے ہو یا نہ ہو‘۔
نوبل امن انعام اگرچہ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے شخص کو دیا جاتا ہے لیکن یہ اختلاف رائے بہر حال موجود ہے کہ ماحولیات یا انسانی حقوق کا کام کس حد تک دنیا میں مسلح تصادم کی روک تھام میں کردار ادا کرسکتاہے اور یہ تشریح کس حد تک الفریڈ نوبل کی وصیت سے مطابقت رکھتی ہے۔ تاہم نوبل کمیٹی کا اصرار ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی درحقیقت مسلح تصادم کا راستہ روکنے کی کوششوں کا اہم ترین حصہ ہے۔ اسی تشریح کی رو سے سال رواں کا امن انعام ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی ایک خاتون کو دیا گیا ہے۔
اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تشریح کس حد تک الفریڈ نوبل کی وصیت میں لکھے گئے الفاظ کے مطابق ہے، ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ کسی حد تک اس انعام کو مغرب کے سیاسی نظریات کے فروغ اور مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے چین روس یا ایران میں جابرانہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے داد و تحسین کے مستحق قرار پاتے ہیں لیکن امریکہ میں موت کی سزا کے خلاف جد و جہد، مغربی ممالک میں نسل پرستی کے خلاف کام یا بھارت میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اٹنے والی آوازوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
نوبل کمیٹی نارویجئن پارلیمنٹ کا نامزد کردہ ایک خود مختار ادارہ ہے اور اپنے فیصلوں کے لیے کسی حکومت کو جوابدہ نہیں ہے۔ اسی لیے امید کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی دنیا میں تنازعات کی روک تھام کے لیے جد و جہد کا احاطہ کرتے ہوئے ان ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی جد و جہد کو بھی پیش نظر رکھے گی جو بظاہر مغربی بلاک کا حصہ ہیں لیکن ان کی پالیسیاں بسا اوقات تصادم کم کرنے کی بجائے ، اس میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ