پاکستان میں اب تک ہونےوالی چار فوجی بغاوتوں(1958، 1969،1977،1999) کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہےلیکن ناکام ہونے والی فوجی بغاوتوں کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ناکام فوجی بغاوتوں کی ہمیشہ پردہ پوشی کی گئی ہے اور ان کے بارے میں تحقیقی اور معروضی مواد نہ ہونے کے برابرہے۔پاکستان میں اب تک کتنی ناکام فوجی بغاوتیں ہوئیں اس بارے بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ آئی۔ایس۔پی۔آر کے سابق ڈایریکٹر جنرل اے۔آر۔صدیقی ایسی فوجی بغاوتیں جو کامیاب نہ ہوسکی تھیں کی تعداد نو بتاتے ہیں جب کہ سابق بیوروکریٹ اور کابینہ سیکرٹری حسن ظہیر جنہوں نے راولپنڈی سازش کیس پر کتاب لکھی ہے، کے مطابق ان ناکام بغاوتوں کی تعداد پانچ تھی۔پاکستان میں صرف وہی فوجی بغاوتیں کامیاب ہوئیں جن کی قیادت اس وقت فوج کے کمانڈر انچیف،چیف آف دی آرمی سٹاف نے کی تھی جب کہ ہر وہ فوجی بغاوت ناکام ہوئی جس کی قیادت میجر جنرلز،بریگیڈئیرز یا اس سے جونئیر رینکس کے فوج افسروں کے پاس تھی۔ پاکستان میں کامیاب ہونے والی فوجی بغاوتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی فوجی بغاوت کی کامیابی کے لئے فوج کے سربراہ اور کور کمانڈرز کی تائید و حمایت ضروری ہے اور ناکام فوجی بغاوتوں کو چونکہ فوج کے سربراہ اور کور کمانڈرز کی تائید وحمایت حاصل نہیں تھی اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔
پاکستان کی پہلی ناکام فوجی بغاوت(مارچ1951) کو راولپنڈی سازش کا نام دیا گیا تھا۔اس فوجی بغاوت کی قیادت میجر جنرل اکبر خان کررہے تھے جو اُس وقت پاکستان کی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے اور جنرل ایوب خان فوج کے کمانڈرانچیف تھے۔یہ فوجی بغاوت پاکستان میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوتوں میں اس اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے کہ اس کی قیادت کرنے والے میجرجنرل اکبر خان نے ایک سیاسی جماعت۔۔۔۔۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور کمیونسٹ پارٹی سے ان کا رابطہ ان کی اہلیہ نسیم اکرخان نے کرایا تھا جو لاہور کی مشہور آرائیں فیملی سے تعلق رکھتی تھیں اور پارٹی کی قیادت میں شامل کچھ افراد سے ان کا سیاسی ونظریاتی تعلق تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سازش کے افشا ہونے کےبعدکمیونسٹ پارٹی نے اپنے ترجمان رسالے میرا وطن میں شائع ہونے والےاپنے ایک بیان میں اس سازش سے اظہار لاتعلقی کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھاکہ پارٹی فوجی بغاوتوں اور سازشوں کے سہارے اقتدار پر قبضہ کرنے پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی اس فوجی بغاوت سے اس کا کسی قسم کا کوئی تعلق ہے۔ پارٹی کے مطابق یہ سازش دراصل حکمرانوں کی اپنی سازش تھی جس کا مقصد ترقی پسند سیاست اور محب وطن فوجی افسروں کو ڈس کریڈٹ کرنا تھا اور یہ برطانوی سامراج اور ان کے مقامی فوجی اور سول کارندوں کے ایما پر کی گئی تھی
راولپنڈی سازش کیس میں 17افراد ملوث تھے جن میں 13فوجی افسران اور چار سوئلین تھے جن میں تین کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا اور ایک سازش کے سرغنہ میجر جنرل اکبرخان کی ایلیہ نسیم اکبر خان تھیں۔فوجی افسروں میں دو افسر منحرف ہوکر وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے جن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک میجرتھا۔جن دس فوجی افسروں پر مقدمہ چلایا گیا تھا ان میںدو میجر جنرلز، دو بریگیڈئیرز، دو لیفٹیننٹ کرنل،دو میجر، دو کیپٹن اور ایک ائیر کموڈور شامل تھا.سوئلین ملزموں میں معروف شاعر فیض احمد فیض، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر، کے۔پی۔کے کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری محمد حسین عطا اور بیگم نسیم اکبر خان شامل تھیں۔
اس سازش کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا افشا کسی فوجی انٹیلی جنس ادارے نے نہیں بلکہ کے پی کے کی سی آئی ڈی کے انسپکڑ عسکر علی شاہ نے کیا تھا۔ عسکر علی شاہ کشمیر جنگ کے دوران میجر جنرل اکبر خان جن کا ان دنوں جہادی نام طارق تھا کے ساتھ مل کر کشمیر پر قبائلیوں کے حملے منظم کرتارہا تھا۔ اس فوجی بغاوت کی ساری تفتیش پولیس نے کی اور فوجی افسروں کو راولپنڈی پولیس نے ایس پی ملک حیب اللہ کی قیادت میں گرفتار کیا تھا( آج یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی میجر جنرل کو خواہ وہ بغاوت ہی میں کیوں نہ ملوث ہو اسے کوئی پولیس افسر گرفتار کرے)۔اس فوجی بغاوت کے ملزموں پر مقدمہ چلانے کے لئے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے اعلی عدلیہ کے تین ججز پر مشتمل خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا تھا جس کےسربراہ فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس عبدالرحمنٰ تھے جب کہ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جسٹس امیرالدین احمد اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شریف اس کے دوسرے ارکان تھے۔ ملزموں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے قومی اسمبلی نے خصوصی ٹربیونل کے قیام کی منظوری دی تھی اور اس کے قیام کی مخالفت اسمبلی میں موجود کانگریسی ارکان اسمبلی نے کی تھی جن کا موقف تھا کہ یہ اسمبلی آئین ساز اسمبلی ہے اس لئے یہ ایسی قانون سازی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ کانگریسی اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ ٹربیونل بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے اور اس کے قیام کے لئے جو قانون سازی کی جارہی ہے اس کے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر دورس اثرات مرتب ہوں گے لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان حکومت نے ایک نہ سنی اور مسلم لیگ ارکان اسمبلی کی اکثریت نے یہ قانون منطورکرلیا تھا۔فوجی بغاوت کے اس مقدمے کی خاص بات یہ تھی کہ جس عسکر علی شاہ کی رپورٹ پر یہ مقدمہ قائم ہوا تھا اس کو کبھی بھی استغاثہ نے بطور گواہ خصوصی ٹربیونل کے روبرہ پیش نہیں کیا تھا اور عذر یہ تراشا گیا کہ وہ ملازمت سے ریٹایرڈ ہوکر نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے اور متعدد بار اس کے گھر اور دیگر ٹھکانوں پر پتہ کرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہوسکا۔اس سازش کے حوالے سے پاکستان کے میڈیا کا کردار بہت گھناونا تھا۔جوں ہی وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنی تقریر میں اس سازش کی ناکامی کا اعلان کیا تو اس کے چند گھنٹوں بعد لاہور ،کراچی، پشاور اور ڈھاکہ سے شایع ہونے والے اخبارات کا ایک اجلاس ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اس مبینہ سازش کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے حکومت کو اپنے بلا مشروط تعاون کا یقین دلایا گیا تھا۔ زیڈ اے سلہری تو اتنے مشتعل ہوگئے تھے کہ انہوں نے کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی رکنیت سے اس بنا پر استعفی دے دیا تھا کیونکہ فیض احمد فیض اس کونسل کے صدر تھے اور وہ اس سازش میں ملزم ٹھہرائے گئے تھے۔
خصوصی ٹربیونل نے اپنی عدالت حیدرآباد میں لگائی اور وہیں اس مقدمے کی کاروائی مکمل کی تھی۔ چند ماہ میں مقدمہ کی کاروائی مکمل کرکے سازش میں شامل مبینہ ملزموں کو سزائیں سنادی تھیں۔ سب سے زیادہ سزا میجر جنرل اکرخان کو دی گئی تھی جو بارہ سال تھی۔فیض احمد فیض،سجاد ظہیر میجر اسحاق محمد اور محمد حسین عطا کو چار چار سال کی سزائیں دی گی تھیں۔ ملزموں کو اس خصوصی قانون کے تحت ان سزاوں کے خلاف اپیل کا حق حاصل نہیں تھا،
راولپنڈی سازش کے ملزموں میں شامل کیپٹن ظفراللہ پوشنی جو سب سے کم عمر ملزم تھے سازش اور جیل میں گذرے ماہ وسال کے بارے میں زندگی زنداں دلی کا نام ہے کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جب کہ ایک ناول دوڑتا چلا گیا بھی ان کی فوج اور بعدازاں زندگی کی احاطہ کرتاہے یہ ناول آٹو بائیوگرافیکل ناول کہا جاسکتا ہے اسی طرح میجر حسن نے بھی شمشیر سے زنجیر تک سازش اور جیل میں گذرے وقت کا احوال لکھا ہے۔
فیس بک کمینٹ