نارویجین نوبل کمیٹی سالہ رواں کا نوبل امن انعام دیتے ہوئے ایک بار پھر دنیا میں تنازعات کم کرنے کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام دینے میں ناکام رہی۔ اس وقت یوکرین کے علاوہ مشرق و سطیٰ میں شدید جنگی حالات ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر انسان ہلاک ہو رہے ہیں لیکن نوبل کمیٹی ان تنازعات پر رائے عامہ ہموار کرنے میں مکمل طور سے ناکام رہی ہے۔
2024 کا امن انعام جوہری ہتھیاروں کے خاتمہ کے لیے کام کرنے والی ایک جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو کو دیا گیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاری سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا اور نہ ہی دوسری جنگ میں امریکی جوہری ہتھیاروں کا سامنا کرنے والے جاپانی شہریوں کی قائم کی گئی اس تنظیم کی اہمیت اور جد و جہد سے انکار ممکن ہے۔ لیکن جس وقت ہر روز اسرائیلی میزائل اور فضائیہ غزہ اور لبنان میں شہریوں کو ہلاک کرنے میں مصروف ہو تو اس جارحیت کے سامنے پر امن طریقے سے کھڑے رہنے والے شہری، ادارے اور تنظیمیں، امن انعام کے سب سے زیادہ مستحق تھے۔ تاہم نوبل کمیٹی ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی کیوں کہ اس سے اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والے عناصر کی شدید ناراضی اور ردعمل کا اندیشہ تھا۔
نوبل کمیٹی اس سے پہلے چینی، روسی اور ایرانی شہریوں کو پر امن جد و جہد کے ذریعے اپنی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانے پر انعام سے نواز چکی ہے۔ کیوں کہ مغربی ممالک کی رائے عامہ کو ان ملکوں کے خلاف پہلے سے تیار کیا جا چکا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین، روس یا ایران کی حکومتوں کو ناراض کرنا یا ان کی مرضی کے خلاف نوبل امن انعام کا اعلان سفارتی و سیاسی لحاظ سے مغربی ممالک کے لیے قابل قبول ہے۔ لیکن اگر اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی ادارہ یا شخص آواز اٹھانے کا حوصلہ کرتا ہے تو اس پر نت نئے الزامات عائد کر کے اسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے غزہ میں جارحیت کے بعد ، اقوام متحدہ کے فیصلے کے عین مطابق ناروے سپین اور آئرلینڈ نے اس سال مئی میں خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ اس فیصلہ کے بعد اسرائیلی حکومت نے مسلسل ان تینوں ممالک کو ’دشمن‘ سمجھنے کا وتیرہ اختیار کیا۔
اس پس منظر میں نوبل کمیٹی نے کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئے تنازعہ کا حصہ بننے کی بجائے دنیا کے دور دراز گوشے میں کام کرنے والی ایک غیر اہم اور غیر متنازعہ تنظیم کو امن انعام دے کر بظاہر سرخروئی حاصل کی ہے۔ اور نارویجین حکومتی عہدیداروں یا عالمی میڈیا کی طرف سے خراج تحسین بھی وصول کیا ہے۔ لیکن کیا اس طریقے سے الفریڈ نوبل کی وصیت کا مقصد بھی پورا ہوا ہے جس میں مسلح تنازعہ کے خلاف پر امن طریقے سے کام کرنے والوں کو انعام سے نوازنے کی بات کی گئی ہے۔ تاکہ جنگ جوئی اور جارحیت کرنے والی طاقتوں کے خلاف پر امن مزاحمت اور جد و جہد کی قدر منزلت ہو اور دنیا بھر کے ملکوں کو یہی راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
نارویجین نوبل کمیٹی کے چیئرمین یورگن واتنے فریدنس نے جمعہ کو جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو کو 2024 کا نوبل امن انعام دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت بے حد ضروری ہے۔ اس بات کی نشاندہی ہونی چاہیے کہ اب کبھی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ نیہون ہیدانکیو اور ہیباکوشا نے اس حوالے سے اہم جد و جہد کی ہے۔ واضح رہے کہ جاپانی تنظیم نیہون ہیدا نکیو اگست 1945 میں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکی ایٹم بم حملوں میں زندہ بچ جانے والے لوگوں نے قائم کی تھی۔ اس تنظیم نے اس انسان دشمن تباہی میں زندہ بچ جانے والے لوگوں کی گواہیوں کے ذریعے دنیا کی توجہ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاری کی طرف مبذول کرانے کے لیے کام کیا تھا۔ ان گواہیوں کو ہی درحقیقت ہیباکوشا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کا حوالہ نوبل کمیٹی کی طرف سے یہ انعام دیتے ہوئے کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا عہد کریں۔ دنیا میں اس وقت کئی تنازعات موجود ہیں اور مسلح تصادم دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ان حالات میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مزید ممالک جوہری ہتھیار بنانے کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ تنازعات میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ کے اس مرحلے پر ہمیں اس یاددہانی کی ضرورت ہے کہ ایٹم بم دنیا کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔
البتہ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یورگن واتنے فریدنس جس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنے میں دانستہ یا نادانستہ ناکام رہے، اسے سال رواں کا نوبل امن انعام لینے والی تنظیم کے سربراہ نے دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا۔ نیہون ہیدانکیو کے لیڈر توشوکیو میماکی نے نوبل امن انعام ملنے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس انعام کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا بے حد ضروری ہے۔ البتہ اس وقت غزہ کی صورت حال بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ 80 سال پہلے ہیروشیما اور ناگاساکی میں تباہی کے بعد دیکھنے میں آئی تھی۔ وہی ہلاکت خیزی اس وقت غزہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے امن کا قیام ممکن ہوتا ہے لیکن ایسے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روس یوکرین کے خلاف یا اسرائیل غزہ میں جوہری ہتھیار استعمال کرے۔ تو کیا ایسی صورت میں تباہی یہیں رک جائے گی؟ سیاست دانوں کو ان معاملات پر غور کرنا چاہیے۔
سیاست دانوں کے علاوہ نارویجین نوبل کمیٹی کو بھی حالات کا جائزہ لینے اور فیصلہ کرنے سے پہلے نوبل کی وصیت کے مطابق ایسے تنازعات کے متعلق رائے دینے کا حوصلہ کرنا چاہیے جو عین اس وقت انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی طرح درحقیقت سویڈش سائنسدان اور نوبل انعامات کے بانی الفریڈ نوبل کی حقیقی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ ماضی کی چند مثالوں کی طرح اس بار بھی نوبل کمیٹی نے حقیقی تنازعہ اور اس کے خلاف پرامن طریقے سے سینہ سپر رہنے والے لوگوں یا تنظیموں کو نظر انداز کیا ہے۔ بلکہ تنازعات کے ان پہلوؤں کا حوالہ دینے کا حوصلہ بھی نہیں کیا جن کی جانب توشوکیو میماکی نے انعام ملنے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی ہے۔
اس میں دو پہلو کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک غزہ اس وقت ویسی ہی تباہی کا سامنا کر رہا ہے جس کا سامنا جاپان نے ایٹمی حملوں کے وقت 1945 میں کیا تھا۔ دوسرے اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں اور وہ کسی بھی وقت ان ہتھیاروں کو جنگ جیتنے کے زعم میں استعمال کرنے کی حماقت کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں تباہی کا جو منظر نامہ پیش آئے گا اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ دنیا کے کسی بھی باضمیر شہری کی طرح میماکی بھی انعام سے نوازے جانے کے باوجود تباہی کے اصل منبع اور مرکز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ نوبل کمیٹی کو مستقبل میں فیصلے کرتے ہوئے اس نصیحت کو رہنما اصول کے طور پر اپنانا چاہیے۔
اس بار یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ نوبل امن انعام کسی ایسے ادارے کو دیا جائے گا جو غزہ میں جنگ کے خلاف پر امن جد و جہد میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہ سوچنا تو ممکن نہیں تھا کہ نوبل کمیٹی غزہ کے کسی ایسے بچے کو انعام سے نوازتی جو اسرائیلی بمباری میں زخمی ہوا لیکن پھر بھی امن سے جینے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ یا اس ماں کو نوازا جاتا جس کا سارا خاندان اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود غزہ ہی میں مقیم ہے۔ البتہ یہ خواہش و امید ضرور تھی کہ غزہ کو تختہ مشق بنانے کی اسرائیلی حکمت عملی کے سامنے پر امن کام کرنے والے کسی ادارے کو انعام دے کر اسرائیل کو جنگ جوئی اور جارحیت کے خلاف پیغام دیا جائے گا۔
اس حوالے سے امن انعام کا سب سے زیادہ حقدار اقوام متحدہ کا ادارہ یو این آر ڈبلیو اے سمجھا جا رہا تھا۔ یہ ادارہ 1949 میں فلسطینی پناہ گزینوں کو ضروری امداد پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے 30 ہزار کارکن مقبوضہ علاقوں میں ساٹھ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو بنیادی سہولت بہم پہنچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی کل آبادی اسی تنظیم کے ذریعے بنیادی ضرورت کی اشیا حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی میں کئی سال سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملہ کے بعد الزام لگایا تھا کہ ان حملوں میں ملوث حماس کے 12 جہادی انروا کے ملازم تھے۔ اس الزام کے بعد انروا نے سنجیدگی سے اپنے کارکنوں کے بارے میں چھان بین کے طریقے سخت کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلح جد و جہد میں ملوث کوئی شخص اس تنظیم کے ساتھ شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود امریکہ نے اسرائیلی الزامات کی وجہ سے اس تنظیم کی مالی امداد بند کی ہوئی ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں حملے کرتے ہوئے اسرائیل نے متعدد بار انروا کی امدادی کارروائیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس عالمی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے 224 کارکن ہلاک ہوئے جبکہ انروا کے 190 امدادی مراکز کو تباہ کیا گیا۔ پوری دنیا مانتی ہے کہ غزہ میں امداد فراہم کرنے کے لیے انروا اور اس کے لیڈر فلیپ لازارینی کی خدمات ناگزیر ہیں۔ اسی لیے اس تنظیم کو سال رواں کے امن انعام کا سب سے زیادہ مستحق سمجھا جا رہا تھا۔
اس حوالے سے دوسرا نام عالمی عدالت انصاف کا لیا جا رہا تھا۔ ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات حل کرنے کے لیے یہ عدالت 1945 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ ادارہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر ممالک کو باہمی اختلافات حل کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ اگرچہ اس کے فیصلوں پر عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا لیکن اس کی سفارتی، قانونی اور سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غزہ میں جنگ کے تناظر میں عالمی عدالت انصاف نے اس سال جنوری میں اسرائیل کو نسل کشی سے باز رہنے کی ہدایت کی تھی۔ اسی طرح مارچ 2022 میں عدالت نے روس کو حکم دیا تھا کہ یوکرین میں جنگ بند کی جائے۔ یہ دونوں فیصلے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کروانے کی کوشش شمار ہوتے ہیں۔ نارویجین امن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پر یو کے خیال میں عالمی عدالت انصاف موجودہ بین الاقوامی صورت حال میں امن انعام کی مستحق ہو سکتی تھی کیوں کہ یہ ادارہ مسلح تنازعہ ختم کروانے کے اسی اصول کے تحت کام کرتا ہے جو الفریڈ نوبل نے اپنی وصیت میں بیان کیا ہے۔ عدالت انصاف کو امن انعام دینا متنازعہ بھی نہ ہوتا لیکن اسرائیلی جارحیت کے خلاف اس کے حالیہ فیصلہ کی وجہ سے اسرائیلی حکومت اور اس کے حامیوں کی ناراضی کا اندیشہ بہر طور موجود تھا۔
نارویجین نوبل امن کمیٹی ایک بار پھر عالمی امن میں مناسب اور بروقت کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگرچہ جاپانی تنظیم نیہون ہیدانکیو کا کام بھی قابل قدر ہے لیکن جیسا کہ اس کے لیڈر نے نشاندہی کی ہے کہ اس وقت دنیا کے امن کو خطرہ کہیں اور سے ہے۔ نوبل کمیٹی اس خطرہ کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ