لاہور کا ایک خاص طبقہ ہے۔”بارہ دروازوں اور ایک موری والے“پرانے شہر کے مجھ جیسے درمیانی طبقے سے اُٹھے لوگ انہیں ”ممی ڈیڈی“ کہا کرتے تھے۔ آج کل شاید وہ ”برگر“ کہلاتے ہیں۔ خیر اس طبقے کے چند لوگوں نے 80کی دہائی میں انگریزی اخبارات کے لئے کالم وغیرہ لکھنا شروع کردئیے۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوا کہ وہ ”ترقی پسند“ ہوا کرتے ہیں۔
میرے بچپن اور جوانی کے دنوں میں ”ترقی پسند“ سوشلسٹ انقلاب کے پرچارک ہوا کرتے تھے۔ ان کی بے پناہ اکثریت نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ لوگ بے تحاشہ پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے۔اپنے علم کے بل بوتے پر اچھی نوکریوں کی تلاش سے مگر گریز کرتے۔ معمولی تنخواہوں پر مختلف اخبارات کے لئے لکھتے۔ اضافی آمدنی کے لئے انہیں ریڈیو، ٹیلی وژن یا فلموں کے لئے ڈرامے،کہانیاں،گیت یا مکالمے وغیرہ لکھنا پڑتے۔ رہن سہن ان کا عام محلوں میں رہنے والوں جیسا ہی رہا۔ اپنے رویے سے وہ ہمیشہ غریب پرور ثابت ہوئے۔
بہت ہی دھانسو انگریزی میں لکھنے والے جن لوگوں کا ذکر میں کررہا ہوں ان سب کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جن کا ذکر انگریز ڈپٹی کمشنروں نے اپنے گزیٹرزمیں کیا ہے۔ان خاندانوں نے سامراج سے وفاداری کے عوض نہری نظام کی بدولت زرخیز ہوئی زمینوں سے وسیع تر رقبے حاصل کئے۔ ”بندوبست دوامی“ کے طفیل برطانوی سامراج نے انہیں ”خاندانی جاگیردار“ بنادیا تھا۔ ان کے پرکھوں کو اعزازی مجسٹریٹوں کے عہدے ملے۔ان کے بیٹوں کو ”اچھے شجرے“کی بدولت لاہور کے ایچی سن کالج میں داخلہ دیا جاتا تھا۔ بیٹیاں تعلیم حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتیں تو لاہور کے کانونٹ سے ہوتے ہوئے کنیرڈکالج تک پہنچ جاتیں۔
”ثقافتی“ سرگرمیوں سے اس طبقے کا بہت واسطہ رہتا۔ انہیں ریاستوں کے نواب راجاؤں کی طرح کلاسیکی موسیقی، مصوری اور فنِ ڈرامہ نگاری کا سرپرست شمار کیا جاتا۔ لاہور کی گلیوں سے اُٹھے مجھ جیسے لوگ ان کے اندازِسخن کی تاب نہ لاپاتے۔ ان کی نشست وبرخاست والے ماحول میں بلندآواز سے قہقہہ لگانے سے خوف آتا۔ ”گلی کی زبان“ استعمال کرنے کی جرات نہ ہوتی۔
بہرحال انگریز ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے لکھے گزیٹرز میں ”خاندانی“ ٹھہرائے افراد کی نئی نسلوں نے جب انگریزی اخبارات کے لئے کالم وغیرہ لکھنا شروع کئے تو مجھ جیسے لوگ ان کی تحریروں سے بہت متاثر ہوئے۔ ان میں سے اکثر جنرل ضیاءکے اس دور میں لکھنا شروع ہوئے تھے جب فوجی آمر نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جمہوریت بحال کرنے کا ڈھونگ رچانا شروع کیا۔ میرے ممدوحین نے اس نظام کے ذریعے ابھرنے والے سیاست دانوں پر طنز کے تیر برسانا شروع کردئیے۔ 1985کے انتخابات کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بن کر وزیر شذیر ہوجانے کے بعد یہ سیاستدان عوام کے غیض وغضب کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ میرے ممدوحین نے سفاک انگریزی زبان میں ان کے بخیے ادھیڑنا شروع کردئیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ لکھاری اس ملک میں ”لبرلزم“ کی بہادر علامتوں میں تبدیل ہوگئے۔
”لبرلزم“ کی ان چند علامتوں ہی نے نواز شریف کے بارے میں یہ مشہور کیا کہ لاہور کے لوہا بناکر بھیجنے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے اس سیاست دان کو انگریزی نہیں آتی۔ یہ بات فوراََ تسلیم کرلی گئی۔ اگرچہ نواز شریف لاہور کے اس سکول میں گئے تھے جہاں مثال کے طورپر انگریزی صحافت کے بہت بڑے نام نجم سیٹھی صاحب نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ شاید وہ دونوں ہم عصر بھی تھے۔ سکول کے بعد نواز شریف لاہور کے گورنمنٹ کالج گئے۔ احمد شاہ بخاری،علامہ اقبال،فیض ا حمد فیض، صوفی تبسم ،ڈاکٹر اجمل۔ نام مکمل کرنے میں لگ گیا تو کالم کی جگہ ختم ہو جائے گی۔ جیسے جید افراد کا تعلق اس کالج سے رہا ہے۔ تعلیمی معیار اس ادارے کا کم از کم میرے یہ کالج چھوڑنے تک بہت معیاری رہا ہے۔ نواز شریف مگر میرے ممدوحین کے مطابق اس کالج سے کچھ سیکھ نہیں پائے۔ صبح اُٹھ کر بقول ان کے گوالمنڈی کے سری پائے کھاتے اور لسی پی کر سو جاتے۔ لسی اور سری پاؤں سے رغبت کی وجہ سے نواز شریف کو Dimwit ثابت کر دیا گیا۔
مجھے نواز شریف کی سیاست سے قطعاََ دیگر کئی ٹھوس وجوہات بنا پر شدید اختلاف رہا ہے۔ اس اختلاف کے مسلسل اظہار کی وجہ سے ان کے 90 کی دہائی والے دونوں ادوار میں بہت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ حقیقت مگر 1992ہی میں دریافت کرلی تھی کہ موصوف یورک ایسڈ کی وجہ سے سری پائے سے گریز کرتے ہیں۔پرہیزی کھانا ان کی مجبوری ہے۔
یہ دریافت کرنے کے بعد رپورٹر والے تجسس کے ساتھ میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان پر سری پائے کھانے والے Dimwitکی تہمت کیوں لگائی جاتی ہے۔ بہت تحقیق کے بعد دریافت یہ ہوا کہ انگریزی ڈپٹی کمشنروں کے لکھے گزیٹرز کے مطابق ”خاندانی جاگیردار‘ ٹھہرائے افراد کی نئی نسل کو نواز شریف میں درحقیقت ایک Upstartنظر آتا ہے۔ نودولتیا۔”خاندانی جاگیردار“ اس نودولتیے کے سیاسی عروج کو ہضم نہیں کر پائے ہیں۔ اسے طنز کے نشر چلاکر مسمار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طنز کا یہ ویسا ہی انداز تھا جو مشہور فرانسیسی ناول نگاربالزاک نے نودولتیوں کے خلاف اختیار کیا تھا۔ روسی ڈرامہ نگار چیخوف کا ایک مشہور ڈرامہ ہے The Cherry Orchard۔ اس ڈرامے میں ایک ”شجرے والے“ خاندان کے ورثاءکو اپنی آبائی حویلی اور فارم ہاؤس ایک نودولتیے ٹھیکے دار کو بیچنا پڑتی ہے۔ اس ڈرامے کو پہلی نظر میں پڑھیں تو وہ دُکھ چھپاہوا نظر آتا ہے جو اپنے آباءکی یادوں سے جڑی خاندانی جائیدادوں کو بیچتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
چیخوف کا مگر ہمیشہ یہ اصرار رہا کہ وہ المیہ ڈرامے نہیں کامیڈی لکھتا ہے۔اس کے اس دعویٰ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اس ڈرامے کو کئی بار پڑھا تو تھوڑی سمجھ آئی کہ چیخوف دراصل میں ان ”خاندانی امراء“کا مذاق اڑاتا ہے جو اس حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کر پاتے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ اقبال کا بیان کردہ ”ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں“ اور ”نظام کہنہ“ کی معدومیت کا یقین وغیرہ۔
بات لمبی ہوگئی۔ نواز شریف کا ذکر آگیا۔ حالانکہ ارادہ میراصرف یہ بیان کرنا تھا کہ بیگم کلثوم نواز محض ”پہلوانوں کے خاندان“سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔ گاما پہلوان ان کے ننھیال تھے۔ بیگم صاحبہ کے والد کا نام ڈاکٹر حفیظ تھا۔ وہ قیامِ پاکستان سے قبل لاہور میں نمایاں ہونے والے چند کامیاب ڈاکٹروں میں سے ایک تھے۔ سرکاری ہسپتال میں نوکری کے فرائض سرانجام دینے کے بعد شام کے وقت غریبوں کے مفت علاج کے لئے لاہور کے مصری شاہ میں واقع عزیز روڈ پر ایک کلینک چلاتے تھے۔ ایسے باپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے بیگم صاحبہ اس دور میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کالج میں داخل ہوئیں جب اندرون شہر کی بچیوں کے لئے اسے ”درست“ تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ان سے ہزار ہا سیاسی اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک ادب اور غریب پرور خاتون تھیں اور ان کی ادب نواز نوازی کی گواہی بہت ہی Snob مانی قرة العین حیدر نے بھی اپنے ”کار جہاں دراز“ میں دے رکھی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)